قدیم زمانے میں جب طاقتور قومیں کمزوروں پر حملہ کرتی تھیں تو ان کے تین مقاصد ہوتے تھے۔ مالِ غنیمت کو لوٹنا، مفتوح قوم کی زمینوں پر قبضہ کرنا اور جنگی قیدیوں کو غلام بنانا۔
ابتدا میں جنگی قیدیوں کو فتح کے بعد قتل کر دیا جاتا تھا، تاکہ وہ ان کے لیے خطرے کا باعث نہ بنیں لیکن بعد میں اس پالیسی کو بدلا گیا اور قیدیوں کو یا تو فاتح لشکر میں بطور انعام تقسیم کر دیا جاتا یا انہیں غلام بنا کر اور غیر مسلح کر کے منڈیوں میں فروخت کر دیا جاتا۔
جب مفتوح قوموں کو غلام بنانے کا رواج شروع ہوا تو غلاموں کی تجارت کرنے والے تاجر مع رقم اور سواریوں کے میدانِ جنگ میں پہنچ جاتے تھے اور وہاں غلاموں کو خریدتے تھے۔ فروخت ہونے والے غلاموں کو ان کے خاندان سے جدا کر دیا جاتا تھا، کیونکہ بیٹے کو کسی ایک تاجر نے اور باپ کو کسی دوسرے تاجر نے خریدا۔
نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ یہ فروخت ہونے والے غلام اپنے رشتے داروں کو زندگی میں دوبارہ نہیں دیکھ پاتے تھے۔ تاجر ان غلاموں کو شہروں کی مختلف منڈیوں میں لے جا کر فروخت کر دیتے تھے اور اس انسانی کاروبار میں ان کے لیے بڑا منافع تھا۔
ایتھنز کی جمہوریہ میں غلامی کے ادارے کی اہمیت تھی۔ ایک تو جنگی قیدی غلام ہوتے تھے، دوسرے وہ غریب لوگ جو اپنا قرض ادا نہیں کر پاتے تھے، انہیں بھی غلام بنا لیا جاتا تھا۔
بعض غریب اپنے بچوں کو قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں ادائیگی کے بدلے قرض خواہ کو دے دیتے تھے۔ غلام عورتوں کے بچوں کو بھی غلام ہی مانا جاتا تھا۔ قانونی طور پر غلام مالک کی ملکیت ہوتا تھا۔
اس کی اپنی نہ تو کوئی شناخت ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی حقوق۔ غلاموں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا، یہ گھریلو کاموں کے بھی ذمہ دار ہوتے تھے کیونکہ عورتیں گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں سولن نامی قانون دان نے نئے قوانین میں ممنوع کر دیا کہ یونانیوں کو غلام نہیں بنایا جا سکتا، بلکہ جن یونانی غلاموں کو ایتھنز سے باہر فروخت کر دیا گیا تھا، انہیں بھی واپس لایا جائے۔
ٹرائے کی جنگ میں جب مفتوحہ عورتوں کو بطور غلام تقسیم کیا جاتا تھا تو ان میں امیر و غریب سبھی عورتیں ایک ہی صف میں کھڑی کر دی جاتی تھیں۔ ایتھنز کے ڈراما نگار یوریپڈیز نے ’ٹروجن عورتیں‘ کے نام سے ایک ڈراما پیش کیا تھا، جس میں مفتوحہ عورتیں اس تشویش میں مبتلا تھیں کہ نہ جانے ان کو کس کا غلام بننا پڑے اور یوں پوری زندگی غلامی میں گزر جائے گی۔
یونانی فوج کا سربراہ آگامیمنون جب جنگ سے واپس یونان آیا تو اپنے ساتھ ایک کنیز کو بھی لایا تو اس پر اس کی بیوی نے اپنے شوہر کو قتل کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غلامی معاشرے کے لیے ایک المیہ تھی۔ معاشرے کے مفکرین اور فلسفیوں کا یہ دستور رہا ہے کہ حکمراں طبقوں کی حمایت میں ہر اس ادارے کو جائز قرار دے دیتے ہیں، جو ان کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔
ارسطو نے بھی غلامی کی حمایت میں کئی دلائل دیے۔ اس کی دلیل کے مطابق یہ قدرت کا اصول ہے کہ کچھ لوگ حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور کچھ ان کی خدمت کے لیے، لہٰذا غلاموں کو اپنے مالک کا وفادار ہونا چاہیے۔
ارسطو کا یہ بھی کہنا تھا کہ غلاموں کی وجہ سے مفکرین، فلسفیوں، ادیبوں اور شاعروں کو روزی کے لیے محنت و مشقت نہیں کرنی پڑتی اور وہ سکون سے بیٹھ کر تخلیقی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ بھی تھی کہ حکمراں طبقے کو فرصت کے لمحات ملنے چاہییں تاکہ وہ غور و فکر کر سکیں۔
وقت کے ساتھ غلامی کا ادارہ تو ختم ہو گیا لیکن موجودہ دور میں غلامی نئی شکلوں میں وجود میں آئی ہے۔
مثلاً برصغیر میں اچھوت یا دلت ذات کے لوگ آج بھی غلام ہیں۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور سرمایہ دار کے غلام ہیں۔ دفتروں میں کام کرنے والے چپڑاسی اور کلرک عہدیداروں کے غلام ہیں۔ گھریلو کام کرنے والے ملازم مالک یا مالکہ کے غلام ہیں۔
غلامی کی یہ نئی شکلیں ہیں کیونکہ جب تک کسی فرد کو اس کے بنیادی حقوق نہیں ملیں گے اور معاشرے میں اس کو مساوی مقام نہیں دیا جائے گا تو وہ کسی نہ کسی شکل میں غلام ہی رہے گا۔