ٹیکسلا میں جنم لینے والا چانکیہ، جس نے ہندوستان کی تاریخ بدل دی

انڈیا کا ’میکاولی‘ اور اپنے وقت کا عظیم ماہرِ سیاسیات اب ہمارے درمیان نہیں، مگر اُس کے وضع کردہ اصول و ضوابط آج بھی اقتدار کے ایوانوں کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔

کوٹلیہ چانکیہ (بائیں) اپنے شاگرد چندر گپت موریہ کے ساتھ (کری ایٹو کامنز)

جہاں آج پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد ہے وہیں مارگلہ پہاڑیوں کی دوسری جانب ٹیکسلا  کے قدیم شہروں کی باقیات پھیلی ہوئی ہیں، جہاں ایک روایت کے مطابق 2350 سال پہلے کوٹلیہ چانکیہ نے جنم لیا، جسے انڈیا کا میکاولی کہا جاتا ہے۔

کوٹلیہ چانکیہ کا باپ رشی چانک جولیاں کی مشہور درس گاہ میں استاد تھا، جہاں دور دراز کے دیسوں سے طلبا علم کی پیاس بجھانے آتے تھے۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ ٹیکسلا میں جنم لینے والا یہ بچہ آگے چل کر ہندوستان بھر کی تاریخ بدل دے گا، بلکہ اسے دنیا کے اوّلین ماہرینِ سیاسیات میں شمار کیا جائے گا۔

کوٹلیہ چانکیہ کی پیدائش کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں چانکیہ کی پیدائش کی خبر جب دائی باہر لے کر آئی تو اس نے کہا مبارک ہو بیٹا ہوا ہے، لیکن میری زندگی میں یہ پہلا بچہ ہے جس کے پیدا ہوتے ہی پورے کے پورے دانت نکلے ہوئے ہیں۔

یہ سنتے ہی چانک اور اس کے دوست دم بخود رہ گئے کہ پتہ نہیں کیا ماجرہ ہے۔

چانک کا ایک دوست نے، جو ستارہ شناس تھا، بتایا کہ یہ اچھا شگون ہے، جس کا مطلب ہے کہ تمہارا بیٹا ملک کا بادشاہ بنے گا۔

یہ سنتے ہی چانک زچگی والے کمرے کی طرف گیا۔ جب کافی دیربعد وہ واپس آیا تو اس کے دوستوں نے پوچھا تم نے اتنی دیر کیوں لگا دی؟

تو اس نے جواب دیا کہ میں وہ دانت توڑنے گیا تھا جو میرے بیٹے کے بادشاہ بننے کا سبب بن سکتے تھے اور پھر یہ سب کچھ کرنے کے بعد میں ندی میں خود کو پاک کرنے گیا تھا۔

اس کے دوست نے جواب دیا کہ تم نے ایک معصوم بچے کے ساتھ ظلم کیوں کیا؟

اس نے  جواب دیا کہ میں نہیں چاہتا میرا بیٹا بادشاہ بنے کیونکہ اسے اپنے ملک کو چلانے کے لیے بہت سارے غلط کام کرنا پڑیں گے، جس سے بندہ جہنمی ہو جاتا ہے۔

میں نہیں چاہتا میرا بیٹا جہنم کی اذیتیں سہے۔ 

جولیاں میں تعلیم و تربیت

چانکیہ کو مختلف ناموں وشنو گپت، وت سیانا اور کوٹلیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

چانکیہ کو روایتی طور پر ٹیکسلا میں ہی ہندومت کے وید پڑھائے گئے کیونکہ اس زمانے میں تعلیم کا آغاز ویدوں سے ہی کیا جاتا تھا مگر چانکیہ کو ویدوں سے زیادہ دلچسپی امورِ سلطنت میں تھی۔ 

ریاستیں کیسے چلتیں ہیں، انہیں کیسے ناقابل شکست بنایا جا سکتا ہے؟ ریاست کے سربراہ کو کن کن سے امور کا لازمی خیال رکھنا چاہیے۔

ٹیکسلا اس زمانے میں علم و فکر کا مرکز تھا، جہاں قانون، ادویات، عسکریات، فلسفہ، ریاضی، معیشت، فلکیات، جغرافیہ، زراعت، ادب اور موسیقی کے علوم پڑھائے جاتے تھے۔

ٹیکسلا گویا اپنے وقتوں کا شہر علم تھا۔ چانکیہ نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی درس گاہ میں تعلیم و تدریس شروع کر دی۔

اسی دوران سکندر ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ ٹیکسلا کے راجہ امنبھی نے اس کا شانداراستقبال کیا بلکہ اسے اپنی کمک فراہم کر کے راجہ پورس کے خلاف صف آرا ہونے میں مدد فراہم کی۔

یونانیوں کے حملوں سے ٹیکسلا اور اس کے ارد گرد کی ریاستیں اتنی افراتفری کا شکار ہوئیں کہ بڑی تعدا د میں پناہ گزینوں نے ٹیکسلا کا رخ کیا۔

سکندر کے یونانی نائبین نے رعایا پر زمین تنگ کر دی، جس کی وجہ سے چانکیہ نے بھی ٹیکسلا کو خیر آباد کہہ کر پاٹلی پترا کا رخ کیا، جو اس زمانے میں ہندوستان کی بڑی راج دہانی تھی۔

پاٹلی پترا کا سفر اور واپسی 

 پاٹلی پترا کو مختلف اوقات میں کئی ناموں سے پکارا جاتا رہا، جن میں پشپا پور، پشپا نگر، پاٹلی پترا، جسے آج پٹنہ کہا جاتا ہے۔

مشہور چینی سیاح فاہین نے جب 399 ق م میں پاٹلی پترا کا دورہ کیا تو اسے عروس البلاد سے تشبیہ دی، جہاں ہر طرف دولت کی فراوانی تھی۔

وہ جب پاٹلی پترا پہنچا تو یہاں کے تخت پر دھن آنند کی حکمرانی تھی جس کا خاندان تقریباً ربع صدی سے حکمران چلا آ رہا تھا۔

دھن آنند شروع میں ایک  ظالم اور جابر حکمران کے طور پر مشہور تھا جس نے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر رکھی تھی۔

اس کے خزانے بھرے ہوئے تھے لیکن جنتا مفلوک الحال تھی۔ پھر کیا ہوا کہ اچانک بادشاہ بدل گیا وہ ظالم سے رحم دل ہو گیا۔

اس نے اپنے خزانے کے منہ عوام کے لیے کھول دیے اور روپے پیسے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پانی کی طرح بہا دیا۔

چانکیہ کے علم و مرتبے کو دیکھتے ہوئے اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا جس میں رعایا آ کر اپنی مالی ضروریات بیان کرتی تھی۔

لیکن پھر کسی معاملے پر بادشاہ چانکیہ سے ایسے ناراض ہوا کہ اسے دربار سے بے عزت کر کے نکال دیا۔

کوٹلیہ چانکیہ نے تہیہ کر لیا کہ وہ بادشاہ سے بدلہ لے گا اور مگدھ کی راج دھانی پر کسی قابل شخص کو لا کر بٹھائے گا۔

یہ عہد کرتے ہوئے وہ مگدھ سے واپس ٹیکسلا کی جانب روانہ ہوا۔

چندر گپت جو چانکیہ کی بدولت بادشاہ بنا

کہتے ہیں جب کوٹلیہ چانکیہ مگدھ سے روانہ ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک بچہ دربار لگائے بیٹھا ہے۔

وہ اپنے درباریوں اور وزرا کو مختلف احکامات دے رہا ہے۔

یہ اگرچہ بچوں کا کھیل تھا لیکن اس بچے کی ذہانت نے چانکیہ کو اتنا متاثر کیا کہ اس نے بچے سے جا کر اس کے بارے میں سوالات کیے جس پر بچے نے بتایا کہ اس کا تعلق نندوں کے خاندان سے ہے اور وہ راجہ سروارتھ سِدھی کا پوتا ہے، جن کی دو بیویاں تھیں- سونندا دیوی اور مورا دیوی۔

سونندا کے نو بیٹے تھے جنہیں ’نوا نند‘ کہا جاتا ہے۔ مورا کا صرف ایک بیٹا تھا جو میرے والد تھے، نندوں نے کئی بار میرے والد کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

ہم 100 سے زیادہ بھائی تھے۔ نندوں نے حسد میں آ کر سب کو مار دیا کسی طرح میں زندہ بچ گیا اور اب میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ میں نندوں سے بدلہ لوں جو اس وقت ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔

دوسری روایت یہ ہے کہ چانکیہ گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک بچہ کانٹوں کی جھاڑی کی جڑوں میں شکر ڈال رہا ہے۔

چانکیہ نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو تو اس نے کہا کہ اس جھاڑی کے کانٹوں نے اسے زخمی کیا ہے اس لیے وہ اس کی جڑوں میں شکر ڈال رہا ہے تاکہ کیڑے آ کر اس جھاڑی کی جڑوں کو کھا جائیں اور یہ خشک ہو جائے۔

اب ان میں سے کون سا واقعہ درست ہے اور کون سا غلط،  لیکن دونوں واقعات میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ بچہ غیر معمولی سوچ کا حامل ہے اور یہی وجہ بنی کہ چانکیہ اسے اس کی ماں کی اجازت سے اپنے ہمراہ ٹیکسلا لے آیا تاکہ اس کی تعلیم و تربیت کر سکے اور اسے مگدھ کی راج دھانی پر بٹھا سکے۔

پھر ایک دن وہ سورج طلوع ہوا جب یہی بچہ چندر گپت موریہ بن کر نہ صرف مگدھ کے تخت پر بیٹھا بلکہ اس نے ہندوستان کی سب سے بڑی موریہ سلطنت کی بنیاد رکھی، جس نے ہندوستان پر 322 ق م سے 185 ق م تک تقریباً 137 سال حکومت کی۔ 

چانکیہ کی ارتھ شاستر 

چانکیہ جس کے اصولوں کو آج بھی طاقت کا سرچشمہ قرار دیا جاتا ہے وہ خود تو بادشاہ نہیں بن سکا لیکن وہ بادشاہ گر ضرور تھا۔

حاکمِ وقت کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ کے حوالے سے اس نے ایک تفصیلی رہنمائی کتاب لکھ  کر چندر گپت کو دی جس میں ریاستی نظم و نسق چلانے، خفیہ معلومات کا حصول، محصولات، تجارت، زراعت، سفارت کاری اور جنگی حکمت عملی سمیت وہ سب کچھ موجود ہے جو کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے ضروری ہے۔

311 ق م  سے 300 ق م کے درمیان لکھی جانے والی یہ کتاب ارتھ شاستر کے نام سے مشہور ہوئی جس کا لفظی ترجمہ ’خوشحالی کا خزانہ‘ ہے۔

یہ کتاب صدیوں تک منظر سے غائب رہی اور 1905 میں اس وقت سامنے آئی جب میسوراورینٹیل لائبریری کے  منتظم رودرا پتنا شما ساسترے  کو پام کے پتوں پر لکھا ہوا ایک مخطوطہ ملا جس نے اسے ارتھ شاستر کے نام سے شناخت کر لیا اور 1915 میں اس کا پہلا انگریزی ترجمہ کر دیا۔

تاہم اس سے پہلے1907 میں اس کا ایک کاپی شدہ نسخہ جرمنی کی میونخ لائبریری میں پہنچ چکا تھا، وگرنہ اس کا اصل نسخہ مدراس میں لگنے والی آگ میں جل گیا تھا۔

اگر میونخ کا نسخہ نہ ہوتا تودنیا میں ارتھ شاستر کا نسخہ ہوجود نہ ہوتا۔

بادشاہ گر جو بادشاہ کے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا 

چندر گپت جب مگدھ کے تخت پر بیٹھا تو چانکیہ اس کا وزیراعظم تھا۔ عملا ً تمام امور سلطنت چانکیہ کے ہی ذمے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے چندر گپت کے حفاظتی دستے میں خواتین کو بھی متعین کیا ہوا تھا۔ اسی نے سب سے پہلے یہ نظریہ دیا کہ خواتین زیادہ وفادار ہوتی ہیں۔

اس خیال سے کہ بادشاہ کو کسی دن زہر دے کر مارا جا سکتا ہے چانکیہ نے بادشاہ کی خوراک میں معمولی مقدار میں زہر کو شامل کر دیا جس کا کچھ عرصے بعد اثر یہ ہوا کہ زہر نے بادشاہ پر اثر کرنا چھوڑ دیا۔

ایک دن غلطی سے بادشاہ کا کھانا اس کی ملکہ نے کھا لیا جس سے ملکہ جو زچگی کی حالت میں وہ مر گئی۔

چانکیہ نے ملکہ کا پیٹ چاک کر کے بچے کو نکال  لیا۔ یہی بچہ بعد میں بندو سار کے نام سے تخت نشین ہوا تو اس نے اپنی ماں کا بدلہ یوں چکایا کہ چانکیہ کو برطرف کر دیا۔

وہ مایوس ہو کرجنگلوں کی طرف نکل گیا۔ وہ ایک کٹیا میں رہنے لگا۔ ایک روز بندو سار کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا اور اس نے چانکیہ کو واپس  بلانا چاہا مگر چانکیہ اب دنیا سے مایوس ہو چکا تھا۔

اس نے انکار کر دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بندو سار نے اسے اپنی بے عزتی سمجھا اور چانکیہ کو اس کی کٹیا سمیت جلا ڈالا۔

چانکیہ مگدھ کے آنند راجہ سے تو اپنا بدلہ چکانے میں کامیاب ہو گیا مگر چندر گپت کے بیٹے بندو سار کے بدلے کی آگ میں جل گیا۔

اس میں محلاتی سازشوں کا بھی کیا دھرا ہو گا کہ بعض اوقات بادشاہ گر کی بھی قربانی لازم ہو جاتی ہے۔

وقت کا یہ عظیم ماہرِ سیاسیات آج ہم میں نہیں لیکن اس کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط آج بھی طاقت کے ایوانوں کا بنیادی جزو ہیں۔

انڈین حکومت نے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے نئی دہلی کے سفارتی علاقے کو چانکیہ پوری کا نام دے رکھا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ