اسلام آباد کی مشہور اور پانچ دہائیوں پرانی سٹیشنری اور درسی کتب کی دکان درانی اینڈ کمپنی کو شہریوں نے شمعیں جلا کر پیر کو خیرباد کہا۔
اسلام آباد کے رہائشی جن کی اس دکان سے یادیں وابستہ ہیں، اس دکان کے بند ہونے سے افسردہ ہیں۔
30 جون کو دُرانی اینڈ کمپنی جو اسلام آباد کے ایف سکس سپر مارکیٹ میں واقع رہی، اس نے آج اپنے دروازے بند کر دیے۔
پچاس برس تک یہ سادہ سی دکان محض قلم اور کاغذ خریدنے کی جگہ نہیں رہی بلکہ یہ علم کا ایک نشان تھی، طلبہ کے لیے ایک پناہ گاہ، فنکاروں کی آماجگاہ، اور دارالحکومت کی بڑھتی ہوئی علمی زندگی کی خاموش ساتھی۔
تین نسلوں تک اس دکان نے سکول کے بچے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز یہیں سے کرتے تھے۔ ان کی پہلی درسی کتب، بستے اور جیومیٹری بکس پر دُرّانی اینڈ کمپنی کی مہر لگی ہوتی تھی۔
اس سٹیشنری کے مالک طاہر ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے خاندان والوں نے اس کا آغاز 1975 میں کیا جس کے بعد آج تیسری نسل تک یہ جاری رہی۔
انہوں نے بتایا کہ ’میری عمر اب اتنی ہو گئی ہے کے ریٹائرمنٹ کا وقت ہے، جس کی وجہ سے میں یہ بند کر رہا ہوں۔ جبکہ میری بیٹیاں بیرون ملک رہائش پذیر ہیں، اس وجہ سے اس کی دیکھ بھال کرنے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔‘
اس موقعے پر سول سوسائٹی اور علاقہ مکینوں کی جانب سے اس سٹیشنری کے آخری دن پر شمعیں جلا کر اس دن کو یاد گار بنایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے ندیم طاہر نے کہا کہ’ آج کا دن ہی میرے لیے کسی بھی کامیابی سے بڑھ کر ہے کیونکہ لوگوں کا پیار جو آج مجھے حاصل ہوا ہے یہ تو کروڑوں روپے دے کر بھی کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔‘
اسلام آباد کی رہائشی زینب نے درانی اینڈ کمپنی بند ہونے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے صبح سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ہمارے گھر کا اپنا ہم سے دور جا رہا ہو۔‘
معروف سیاست دان اور مصنف فرحت اللہ بابر بھی اس موقعے پر موجود تھے جنہوں نے انڈپپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ’ آج تک میں نے کسی دکان کے بند ہونے پر ایسا نہیں دیکھا کہ سول سوسائیٹی اتنی تعداد میں جمع ہوئی ہو۔‘
اسلام آباد کے بڑے کتب خانوں اور آرٹ سپلائرز میں دُرّانی اینڈ کمپنی شہر کے فنکاروں کے لیے ایک خزانہ تھی۔
صادقین، گل جی، اور اقبال مہدی جیسے نامور فنکار اپنے برش، رنگ اور کینوس یہیں سے خریدا کرتے تھے۔
دارالحکومت کے ابتدائی برسوں میں جب اختیارات محدود اور وسائل کم تھے یہ دکان خاموشی سے ایک اہم ثقافتی خلا کو پُر کرتی رہی۔