جب پورے اسلام آباد کی زمین 16 کروڑ روپے میں خریدی گئی

اسلام آباد کی زمین پر کتنے گاؤں موجود تھے اور اس شہر کو آباد کرنے پر کتنا خرچہ آیا؟ پاکستان کے دارالحکومت سے متعلق پانچ دلچسپ تاریخی حقائق۔

22 مارچ، 2020 کو اسلام آباد میں فیصل مسجد کا عمومی منظر (اے ایف پی)

تقریباً 65 سال پہلے پاکستان کے دارالحکومت کو کراچی سے راول پنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ اس وقت کے فیلڈ مارشل صدر ایوب کا تھا، لیکن اس فیصلے کے پیچھے ایک الگ تاریخ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان بننے سے پہلے کیا جا چکا تھا۔

کراچی اور لاہور پاکستان کے بڑے شہر تھے لیکن پھر بھی دارالحکومت کو ان شہروں سے دور ایک اور جگہ بسانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟

یہ شہر جب بنا تھا تو یہاں چھوٹے چھوٹے کتنے دیہات آباد تھے؟ ان کا کیا بنا؟ زمینوں کی خریداری اور پھر نئے شہر کی تعمیر پر کتنا پیسہ خرچ کیا گیا؟ یہ ساری معلومات انتہائی دلچسپ ہیں۔

راول پنڈی کو دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کس کا تھا؟

ایک تاریخ پاکستان بننے کے بعد کی ہے جس کے مطابق 21 جنوری، 1959 کو صدر ایوب نے جنرل محمد یحییٰ خان کی قیادت میں 10 رکنی کمیشن کا اعلان کیا جس کے ذمے نئے دارالحکومت کے قیام کے لیے تجاویز کی تیاری تھی۔

کمیشن نے دو جون، 1959 کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے راول پنڈی کو نئے دارالحکومت کے لیے موزوں قرار دیا جس کی منظوری صدر ایوب نے15 جولائی کو دے دی۔

دو اگست، 1960 کو دارالحکومت کراچی سے راول پنڈی منتقل کرنے کا اعلان ہوا۔ 26 نومبر،1966 تک تقریباً چھ سال راول پنڈی عارضی دارالحکومت رہا، لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ یہ فیصلہ کس کا تھا؟

عموماً ایک خیال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ صدر ایوب اپنے گاؤں سے قریب تر رہنا چاہتے تھے لیکن دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس کا فیصلہ پاکستان بننے سے پہلے ہو چکا تھا۔  

تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن مولانا اسماعیل ذبیح اپنی کتاب ’اسلام آباد منزل مراد‘ میں لکھتے ہیں کہ 26 جولائی، 1944 کو جب قائد اعظم سری نگر سے راول پنڈی آ رہے تھے تو موجودہ مل پور اسلام آباد میں انہوں نے ایک استقبالیے سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کا نیا بننے والا دارالحکومت اسی سبزہ زار میں ہو گا۔

مسرت حسین زبیری، جو تقسیم سے پہلے حکومت ہند کے سیکریٹری مواصلات تھے، کے بقول  سردار عبد الرب نشتر کی سربراہی میں بننے والی ایک مذاکراتی کمیٹی نے طے کیا تھا کہ پاکستان کا مجوزہ دارالحکومت راول پنڈی کے مضافات میں ہو گا جس کی تائید قائد اعظم نے کی تھی۔

تاہم  نامور مؤرخ  پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کے بقول تقسیم سے متعلق برطانوی دستاویزات ’ٹرانسفر آف پاور‘ کی 12 جلدیں موجود ہیں، جن میں 12 مئی، 1947 کے میمورنڈم کے حوالے سے لکھا گیا کہ پاکستان کا نیا دارالحکومت راول پنڈی میں ہو گا۔

اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ چونکہ نادرن کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر راول پنڈی میں تھا، جسے پاکستان کا نیا جنرل ہیڈ کوارٹر بننا تھا اس لیے برطانوی انتظامیہ چاہتی تھی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کا مرکز بھی یہی شہر ہونا چاہیے۔

اسلام آباد  کی اراضی کتنے میں خریدی گئی؟

آج چمکتا دمکتا یہ شہر جہاں آباد ہے وہاں کبھی 85 چھوٹے بڑے گاؤں آباد تھے، جن کی 45 ہزار ایکڑ اراضی اس وقت 16 کروڑ روپے کا معاوضہ دے کر خریدی گئی۔

اسلام آباد کے قیام سے ان دیہات میں آباد تقریباً 50 ہزار لوگ بے گھر ہوئے۔

محمد عارف راجہ اپنی کتاب ’تاریخ راولپنڈی و تحریک ِ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ اسلام آباد کے متاثرین کو ملتان، ساہیوال، وہاڑی، جھنگ اور دریائے سندھ کے گدو بیراج کے ساتھ  تقریباً 90 ہزار ایکڑ زمین الاٹ کی گئی جس کے لیے  تقریباً 36 ہزار پرمٹ جاری کیے گئے۔

اسلام آباد کا علاقہ صرف راول پنڈی ضلع سے نہیں لیا گیا بلکہ اس کا کچھ علاقہ نتھیا گلی اور ہری پور ہزارہ سے بھی لیا گیا۔

اہم عمارات کی تعمیرپر کتنا پیسہ صرف ہوا؟

اسلام آباد کو آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا اور امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی کی طرز پر ایک منظم شہر بنانے کے لیے بہت پیسہ صرف کیا گیا۔

ایک بار شیخ مجیب الرحمٰن سے اسلام آباد میں پوچھا گیا کہ انہیں پاکستان کا نیا دارالحکومت کیسا لگتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے انہیں پٹ سن کے ریشوں کی بو آتی ہے۔

یعنی مشرقی پاکستان کے وسائل بھی اس شہر پر لگائے جا رہے ہیں، لیکن آج آپ کے لیے یہ بات حیرانی کی ہو گی کہ اس وقت اس شہر کی تعمیر پر جتنا پیسہ صرف ہوا تھا آج اتنے پیسوں کا ایک انڈر پاس بنتا ہے۔

اسلام آباد میں سب سے پہلی کوٹھی مشرقی پاکستان کے مرکزی وزیر لال میاں کی بنی، جس کا نام سلطانی کوٹھی رکھا گیا۔

 سرکاری عمارات میں پاکستان ہاؤس پہلی عمارت بنی تھی جسے اب ایم این اے ہاسٹل کہتے ہیں۔ پھر فیڈرل سیکرٹریٹ کی عمارات بنیں۔

راجہ عارف منہاس کی کتاب کے مطابق ایوان صدر کی تعمیر پر 20 کروڑ 55 لاکھ، قومی اسمبلی کی عمارت کے لیے 17 کروڑ 67 لاکھ، اور اسلام آباد کی سڑکوں کی تعمیر پر نو کروڑ 61 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔

بلیو ایریا کے چائنا چوک میں سب سے پہلے بننے والا ٹاور عمارت ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا تھا جس پر آٹھ کروڑ روپے لاگت آئی۔

سٹیٹ بینک کی عمارت تین کروڑ روپے سے تیار ہوئی۔ پہلے 20 سالوں میں اسلام آباد کی تعمیر پر کل خرچ دو ارب 76 کروڑ کا ہوا تھا۔ 

فیصل مسجد  کے لیے شاہ فیصل نے کتنا پیسہ دیا؟

فیصل مسجد جہاں تعمیر کی گئی وہاں چند گھروں پر مشتمل پہاڑ کے دامن میں ڈھوک جیون ہوا کرتی تھی۔

اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں یہاں ایک بڑی اور شاندار مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ رکھی گئی تھی مگراس کے لیے خاصی رقم درکار تھی۔

سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل جب 21 اپریل، 1966 کو شکرپڑیاں میں پودا لگانے کے لیے آئے تو انہیں اسلام آباد کی تعمیر کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس میں انہوں نے اسلام آباد  میں مسجد کی تعمیر کے لیے تمام اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کی تھی۔

1975 میں اس مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ نیشنل کنسٹرکشن کمپنی نے سب سے کم 26 کروڑ روپے کی بولی دی۔

فیصل مسجد میں ایک لاکھ نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ مسجد مکمل ہونے تک اخراجات میں اضافہ ہوتا گیا، جس کے لیے سعودی حکومت نے 40 کروڑ روپے فراہم کیے۔

آج سے 65 سال پہلے اسلام آباد کا موسم کیسا ہوتا تھا؟

وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی جہاں اور بہت سی وجوہات تھیں وہاں ایک وجہ ایک ایسی جگہ منتخب کرنا تھی جہاں کا موسم خوشگوار ہو۔

گرمیوں میں یہاں کا درجہ حرارت 42 سینٹی گریڈ سے اوپر نہیں جاتا تھا مگر اب بدلتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اسلام آباد کا درجہ حرارت 46 درجے کی حد بھی عبور کر چکا ہے۔

راول پنڈی کے گزیٹیٔر کے مطابق شہر میں ہر چار سال کے بعد مارگلہ کی پہاڑیاں برف سے ڈھک جاتی ہیں جبکہ 1883 میں یہ برف راول پنڈی تک اتر آئی تھی۔

اسی لیے راول پنڈی میں انگریزوں کی دور کی عمارات کی چھتیں برف کی مناسبت سے ڈھلوان طرز پر بنائی جاتی تھیں۔

اسی معتدل اور صحت بخش ماحول کی وجہ سے راول پنڈی کو پاکستان کے نئے دارالحکومت کے لیے منتخب کیا گیا تھا مگر بعد میں بالخصوص 2000 کے بعد یہاں پر تیزی سے جنگل کاٹ کاٹ  کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی گئیں جس کا اثر ماحول پر بھی پڑا اور رفتہ رفتہ خوشگوار موسم اس شہر سے روٹھ گئے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ