امارت بخارا کے آخری حکمراں جنہوں نے کابل میں پناہ گزین کی زندگی گزاری

امان اللہ خان نے امیر عالم خان کو کابل کے مضافات سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر قلعہ فتوح کے علاقے میں 25 جریب کا ایک باغ اور ایک مکان دیا، جہاں وہ اپنی 18 بیٹیوں اور 15 بیٹوں کے ساتھ رہتے تھے۔

محمد علیم خان، امارت بخارا کے آخری امیر، کی تصویر جو 1911 میں لی گئی اور بعد میں اسے رنگین بنایا گیا (پبلک ڈومین)

امارت بخارا، جس نے کسی زمانے میں سرکاری فارسی زبان کے ساتھ وسطی ایشیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی اور خطے کی تاریخ اور ثقافت کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا، کے خاتمے کو 105 سال ہوچکے ہیں۔

امیر عالم خان، وہ آخری حکمران ہیں جنہوں نے 1920 میں امارت کے خاتمے کے بعد کابل میں پناہ لی اور اپنی زندگی وہیں گزاری۔ امارت کے ساتویں اور آخری حکمران امیر عالم خان کا تعلق منگھیت خاندان سے تھا۔

امارت بخارا کی سرکاری اور انتظامی زبان فارسی تھی، اور اپنی جلاوطنی کی زندگی کے دوران، امیر عالم خان نے اپنی یادداشتیں اسی زبان میں ایک کتاب کے صورت تحریر کی جس کا عنوان تھا: ’بخارا قوم کے دکھ کی تاریخ۔‘ ان ان کی واحد تحریر بھی ہے۔

یادداشتیں

 اگرچہ 1868 میں مظفر الدین خان کے دور حکومت میں امارت بخارا نے زارسٹ روس کے ساتھ ایک سکیورٹی معاہدہ کیا تھا لیکن زار شاہی کے خاتمے اور لینن کی قیادت میں بالشویکوں کے عروج کے ساتھ، اقتصادی طور پر کمزور اور روس پر منحصر امارت بخارا کو حیران کر دیا۔

اگست 1920 میں امارت بخارا پر بالشویک حملے میں، امیر عالم خان نے چار دن کی مزاحمت کے بعد دستبرداری اختیار کی اور پہلے شہر گجداوان اور پھر افغانستان فرار ہو گئے۔

امیر عالم خان کی افغانستان کے لیے فرار نے منگیت خاندان کی 165 سالہ حکمرانی کا خاتمہ کر دیا، جو ازبک نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اکتوبر 1920 میں سوویت ریڈ آرمی اور مقامی کمیونسٹ فورسز کے ہاتھوں امارت بخارا کے خاتمے کے بعد، اس کی جگہ بخارا عوامی جمہوریہ نے لے لی، جو بالشویکوں کی مکمل حمایت کے ساتھ ایک سوشلسٹ حکومت تھی۔

یہ جمہوریہ، جس نے بظاہر عوامی حمایت کا دعویٰ کیا، درحقیقت سوویت یونین کے کنٹرول میں ایک سیکولر اور بائیں بازو کی حکومت تھی۔ اس عرصے کے دوران، بہت سے علما، زمینداروں اور روایتی اشرافیہ کو یا تو جلاوطن یا قتل کر دیا گیا۔ اگرچہ حکومت سے لڑنے کے لیے بسماچی نامی ایک مزاحمتی تحریک قائم کی گئی تھی، لیکن یہ مزاحمت ناکام اور دبا دی گئی۔

بخارا عوامی جمہوریہ کو ستمبر 1924 میں تحلیل کر دیا گیا اور اس کا علاقہ وسطی ایشیا میں نئی قائم ہونے والی سوویت جمہوریہ، خاص طور پر ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان میں تقسیم کر دیا گیا۔

کابل میں کیا ہوا؟

کابل میں امارت بخارا کے جلاوطن شاہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ شواہد نہیں ہیں۔ ان کی ڈائری واحد دستاویز ہے۔ جب امیر عالم خان نے افغانستان میں پناہ لی تو ترقی پسند شاہ امان اللہ خان ایک سال قبل اقتدار میں آچکے تھے اور ان کا ملک بھی حال ہی میں برطانوی تسلط سے نکل کر آزادی حاصل کر چکا تھا۔ امان اللہ خان نے امیر عالم خان اور ان کے خاندان کا خیرمقدم کیا، کیونکہ امیر کے والد مظفر الدین نے پہلے امان اللہ خان کے دادا عبدالرحمن خان کو امارت بخارا میں سیاسی پناہ دی تھی۔

امیر عالم خان اپنی کتاب ’بخارا اقوام کے دکھ کی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ بالشویکوں کے ہاتھوں شکست کے بعد انہوں نے آمو دریا کو عبور کیا اور ’مجھے خدائی فضل عطا ہوا اور دارالحکومت کابل میں آباد ہو گیا۔‘ انہوں نے لکھا کہ شاہ امان اللہ خان نے ان کا بطور حکمران استقبال کیا اور ان کے رہنے کے اخراجات کے لیے سرکاری خزانے سے ماہانہ 12,000 افغانی مختص کیے تھے۔

امان اللہ خان نے، جنہوں نے اس وقت بالشویک حکومت کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا تھا، امیر عالم خان کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی، لیکن عالم خان نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ کابل سے اپنے لوگوں کی مدد سے انہوں نے بالشویکوں کے خلاف بسماچیوں کی مسلح مزاحمت کی قیادت کی۔

امان اللہ خان نے امیر عالم خان کو کابل کے مضافات سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر قلعہ فتوح کے علاقے میں 25 جریب کا ایک باغ اور ایک مکان دیا، جہاں وہ اپنی 18 بیٹیوں اور 15 بیٹوں کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ باغ اب کھنڈر بن چکا ہے اور کابل کے رہائشیوں میں اسے ’بخارا کے بادشاہ کا باغ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

امیر عالم خان کے 70 سالہ پوتے سید محمد عالمی نے، جو تقریباً 50 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں، انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا امان اللہ خان نے جو باغ تحفے میں دیا تھا وہ افغان بادشاہ کے بھائی عنایت اللہ خان کا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دادا کو بخارا میں اپنے لوگوں اور وفاداروں سے بات چیت کے لیے کابل میں سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور سوویت حکومت کے حکم پر امان اللہ خان نے انہیں کابل چھوڑنے کی اجازت نہیں دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی نے کہا کہ امیر عالم خان نے دو بار امان اللہ خان کو عید کی نماز کے دوران کاغذ کا ایک ٹکڑا دیا جس پر انہوں نے لکھا: ’اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں حج پر جانا چاہوں گا‘ لیکن امان اللہ خان نے دونوں بار جواب دیا: ’اگر اللہ نے چاہا تو ہم اگلے سال ساتھ جائیں گے۔‘ عالمی نے مزید کہا کہ امان اللہ کا وعدہ کبھی پورا نہیں ہوا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر امیر عالم خان کابل سے چلے گئے تو انگریز انہیں بخارا میں بغاوت شروع کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ کہا کہ امان اللہ خان کی حکمرانی کے خاتمے اور حبیب اللہ کالاکانی کے اقتدار میں آنے کے بعد امیر عالم خان کو خوب پذیرائی ملی، ’کیونکہ کالاکانی امیر عالم خان کی بہت عزت کرتے تھے۔‘ کالاکانی نے، جس نے 1928 اور 1929 کے درمیان تقریباً دس ماہ تک افغانستان پر حکومت کی، کابل کے نواح میں قلعہ مراد بیک کے علاقے میں امیر عالم خان کو 50 ایکڑ زمین عطیہ کی۔

سید محمد عالمی نے کہا کہ نادر شاہ کے دور میں (1929-1933) امیر عالم خان پر پابندیاں بڑھ گئیں اور جب ظاہر شاہ اقتدار میں آئے (1933-1973) تو ان کے چچا اور طاقتور وزیر اعظم ہاشم خان نے امیر عالم خان کو دی گئی 50 ایکڑ اراضی ضبط کر لی جو اب افغان وزارت دفاع کی ملکیت ہے۔

امیر عالم خان کا انتقال 1944 میں کابل کے مراد خانی علاقے میں بیماری کے باعث اس مکان میں ہوا جو انہیں اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے تحفے میں دیا تھا۔ سید محمد عالمی کا کہنا ہے کہ انہیں یاد ہے کہ امیر عالم خان کی وفات کے دن افغانستان کے بادشاہ کے حکم سے تقریباً تین ہزار فوجی کابل کی گلیوں میں احترام کے ساتھ کھڑے تھے اور سرکاری اداروں میں افغان پرچم سرنگوں تھا۔

امیر عالم خان کو کابل کے ’شہدا صالحین‘ قبرستان میں دفن کیا گیا۔

تاہم، منگھیت خاندان کی میراث اور امیر عالم خان کی شخصیت اب بھی ازبکستان کے شہر بخارا میں محفوظ ہے۔ یہ شہر وسطی ایشیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے جس کے تاریخی قلعے، امیر عالم خان کے سکول، منگھیت خاندان کے متعدد بادشاہوں کے مقبرے، ان کے باقیات، بخارا کی پہچان بن گئی ہے۔

امیر عالم خان کے بچے اور پوتے

امیر عالم خان کی وفات کے بعد ان کے بچے اور پوتے کابل اور ہلمند میں پھیل گئے۔ افغانستان کے اس وقت کے بادشاہ محمد ظاہر نے وادی ہلمند میں 30 ایکڑ زمین امیر عالم خان کے خاندانوں اور رشتہ داروں میں سے ہر ایک کو ’نقلین‘ سکیم کے تحت عطیہ کی، تاکہ وہ مکان بنا کر وہاں رہ سکیں۔

سید محمد عالمی نے بتایا کہ ہلمند میں حالات کی وجہ سے حکومت کو زمین واپس کرنے کے بعد ان کا خاندان کابل واپس چلا گیا۔

سید محمد عالمی نے کہا کہ امیر عالم خان کے 18 بیٹوں اور 15 بیٹیوں میں سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے اب زندہ ہیں، جو سب افغانستان سے باہر امریکہ، جرمنی اور ہالینڈ میں مقیم ہیں۔

شکریہ رعد علمی امیر عالم خان کی بیٹیوں میں سے ایک ہیں، جنہیں افغانستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پہلے اناؤنسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ امیر عالم خان کے زیادہ تر بچے اور پوتے 1990 کی دہائی میں افغان خانہ جنگی کے دوران ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

شکریہ رعد علمی، جنہوں نے کچھ عرصہ وائس آف امریکہ کے لیے کام کیا، اب امریکہ میں رہتی ہیں۔

سید محمد عالمی نے کہا کہ امیر عالم خان کی اولاد جو اس وقت افغانستان، سعودی عرب، ترکی، امریکہ اور یورپی ممالک میں پھیلی ہوئی ہے ان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہوسکتی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے آبائی وطن بخارا (موجودہ ازبکستان) میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوچکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ