پشاور میں ثمر قند و بخارا

کتنے لوگ جانتے ہوں گے کہ اس مسجد کا نام ’طراق البائے‘ ہے اور اس مسجد کو بنانے والا بائے خاندان  روس میں کمیونسٹ انقلاب آنے کے بعد ثمر قند سے پہلے ہندوستان اور پھر پشاور ہجرت کر کے آیا تھا۔

سیٹھی خاندان مخیر ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ دیندار اور مذہبی لوگ بھی تھے (فیس بک)

پشاور شہر کے عین وسط میں جب آپ خیبر بازار سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی طرف جاتی ہوئی چڑھائی چڑھ کر شہر کی طرف ہسپتال کے کھلنے والے گیٹ کے سامنے پہنچتے ہیں تو بائیں جانب کونے میں ایک  مسجد نظر آتی ہے۔

کتنے لوگ جانتے ہوں گے کہ اس مسجد کا نام ’طراق البائے‘ ہے اور اس مسجد کو بنانے والا بائے خاندان  روس میں کمیونسٹ انقلاب آنے کے بعد ثمر قند سے پہلے ہندوستان اور پھر پشاور ہجرت کر کے آیا تھا۔

یہ صرف بائے خاندان ہی نہیں بلکہ پشاور کا جانا پہچانا بخاری خاندان بھی وہی ہے جو کمیونسٹ غلبے کے سبب اپنے دینی اور مذہبی رجحان کی وجہ سے بخارا سے نکل کر ہجرت کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے پشاور میں آکر بس گئے تھے۔ یہ خاندان کمیونسٹ انقلاب سے پہلے بھی ازبکستان خصوصاً ثمر قند اور بخارا کے علاقوں میں مالی اور تہذیبی حوالے سے کافی مستحکم اور آسودہ تھے۔

اس لیے فطری طور پر یہ سوال میرے ذہن میں ابھرا کہ کمیونسٹ انقلاب کے بعد یہ خاندان یورپ کے علاوہ ایران اور ہندوستان میں بسنے کی بجائے پشاور جیسے چھوٹے اور روایت پرست شہر میں کیوں آکر آباد ہوگئے تھے؟

سو یہی سوال میں نے پشاور کی تہذیبی زندگی کے ماہر اور سینیئر صحافی مشتاق شباب صاحب کے سامنے رکھا تو ان کا جواب حد درجہ مدلل اور منطقی تھا کہ پشاور کا مشہور تاجر سیٹھی خاندان 19ویں  صدی سے سینٹرل ایشیا اور ماسکو کے ساتھ تجارتی اور کاروباری  حوالوں سے منسلک تھا اور اس خاندان کا تسلسل کے ساتھ ان ممالک (وسطی ایشیائی ریاستوں ) میں آنا جانا تھا۔

یہ سیٹھی خاندان ہی تھا جو ہندوستان اور سینٹرل ایشیا کے درمیان ایک تجارتی پل کا کردار ادا کرتا رہا جس کی وجہ سے سینٹرل ایشیائی ریاستوں حتی کہ  ماسکو تک میں ان کا اثر و رسوخ یہاں تک بڑھا کہ سیٹھی خاندان میں بیاہی جانے والی بعض خواتین  کا تعلق انہی سینٹرل ایشیائی ریاستوں سے تھا۔

گویا تجارتی روابط کے ساتھ ساتھ خاندانی رشتہ داریاں بھی قائم ہوگئی تھیں۔

سیٹھی خاندان کو بالعموم اور اس خاندان کے بزرگ کریم بخش سیٹھی کو باالخصوص دو حوالوں سے عالمگیر شہرت حاصل ہے یعنی ایک کریم بخش سیٹھی کی بیش بہا دولت اور دوم ان کے 1884 میں بنائے گئے عظیم الشان اور محل نما گھر ( محلہ سیٹھیان ) لیکن مشتاق شباب صاحب اس سیٹھی خاندان کا ایک اور لیکن قابل تعظیم حوالہ بھی سامنے لے آتے ہیں کہ سیٹھی خاندان مخیر ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ دیندار اور مذہبی لوگ بھی تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سلسلے میں وہ اسی خاندان کے ایک بزرگ عبدالغفور سیٹھی کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ غفور سیٹھی اپنی لاٹھی اُٹھائے صبح صبح شہر کے سکولوں کا رخ کرتے اور بچوں کو روزانہ ایک عربی لفظ سکھا کر اس کا مفہوم بھی از بر کراتے۔

اس سلسلے میں انگریز حکومت نے عبد الغفور سیٹھی کو خصوصی اجازت بھی دی تھی۔

عبد الغفور سیٹھی ہی تھے جو مسجد میں تبلیغ میں مصروف تھے کہ نوکر نے آکر انہیں جوان بیٹے کی ناگہانی موت کی اطلاع دی تو انہوں نے ایک توکل کے ساتھ جواب دیا کہ آپ لوگ کفن دفن کے انتظامات کر لیں میں تبلیغ مکمل کرکے آجاتا ہوں۔

راوی بتاتا ہے کہ جب عبد الغفور سیٹھی اپنے محلے پہنچے تو سامنے سے بیٹے کا جنازہ آرہا تھا۔

جب ہم سیٹھی خاندان کے اس مجموعی پس منظر یعنی تجارتی روابط ، خاندانی رشتہ داریاں اور مذہبی رجحان کو ذھن میں رکھ کر اس حوالے سے سوچتے ہیں تو ہمیں معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی بلکہ ایک سہولت کے ساتھ فوری طور پر نتائج اخذ کر لیتے ہیں کہ نا سازگار حالات میں ثمر قند و بخارا سے ہجرت کرنے والے خاندانوں کا ٹھکانہ اور جائے پناہ پشاور ہی کیوں بنا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ