کراچی میں بارش کے بعد اربن فلڈنگ کی کوریج سازش ہے؟

کراچی میں گذشتہ دنوں بارش سے خبریں بھی قومی سطح کی بنیں جس پر حکام نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا 'کچھ میڈیا ہاؤسز نے منظم منصوبہ بندی' کے تحت کیا۔

کراچی میں شدید بارش کے بعد چار فروری، 2024 کو شہر کی تاریخی عمارت کراچی میونسپل کارپریشن کے باہر پانی کھڑا ہے (روئٹرز)

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گذشتہ دنوں بارش سے خبریں بھی قومی سطح کی بنیں۔ اس پر سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا 'کچھ میڈیا ہاؤسز نے منظم منصوبہ بندی' کے تحت کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے لیے منصوبہ بندی کی تحقیقات تو مشکل ہیں لیکن اس کوریج کی تین بڑی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔

سندھ کے سینیئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے جمعرات کو کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کراچی میں جانی نقصان کم ہوا۔ 'کراچی میں ہونے والی زیادہ تر اموات کرنٹ لگنے کے باعث ہوئیں تاہم کچھ میڈیا ہاؤسز نے منظم منصوبہ بندی کے تحت حکومت کے خلاف مہم چلائی۔'

صوبائی وزیر کے اس بیان پر انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف ماہرین سے گفتگو کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا یہ کوریج غیرمعمولی تھی یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔

1۔ زیادہ چینلز، زیادہ کوریج؟

کراچی پاکستان کا ناصرف بڑا تجارتی مرکز ہے بلکہ اکثر ٹی وی نیوز چینلز کے صدر دفاتر بھی کراچی میں ہیں۔ ماہرین کے خیال میں دراصل یہ ایک بڑی وجہ غیرمعمولی کوریج کی ہوسکتی ہے۔ بعض چینلز نے اپنے میزبانوں کے ذریعے لائیو شاہراے فیصل پر کھڑا پانی اور پھنسے شہری دکھائے۔ یہ سہولت ان چینلز کو  بظاہر کراچی کے مقابلے میں بونیر یا سوات میں دستیاب نہیں تھی۔

نجی ٹی وی چینلز جیو نیوز کے کراچی کے بیورو چیف طارق ابو الحسن کے مطابق یہ چینلز ہمیشہ زمینی حقائق پر واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔'اگر کسی کو لگتا ہے کہ یہ کوئی سازش ہے یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف کوریج ہے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔'

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے طارق ابو الحسن نے کہا: ٹی وی چینلز کی کوریج کے لیے ویڈیو ہونا لازم ہے۔ جب کراچی میں پانی کی نکاسی نہ ہونے، پانی میں لوگوں کی پھنسنے کی ویڈیوز سامنے آئیں تھیں تب ہی کوریج ہوئی۔

'ٹی وی چینلز زمینی حقائق کی بنیاد پر کوریج کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جب ایسے ویزیولز کی بھر مار ہو تو ٹی وی کو کور کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز کی تصدیق کے اور پھر ان واقعات کی رپورٹنگ کی۔

'بارش ہونا قدرتی بات ہے، اس بارش کے بعد پانی کا رکنا بھی قدرتی بات ہے، لیکن پھنسے ہوئے لوگوں کا ریسکیو کرنا حکومت کا کام ہے۔ سکیورٹی ادارے، ریسکیو 1122 سمیت حکومتی اداروں کو بارش کے دوران لوگوں کی مدد کرنا چاہیے اگر نہیں اور اس پر رپورٹنگ ہوئی تو یہ سازش کیسے ہے؟

عام تاثر ہے کہ خیبر پختونخوا، پنجاب، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت میں بارش سے حالات قدرے زیادہ خراب ہوئے مگر کراچی کی نسبت وہاں کی کوریج اس طرح نہیں کی گئی۔ کیوں؟

طارق ابو الحسن نے بھی اس کی وجہ بتا دی: 'خیبر پختونخوا سمیت مختلف علاقوں کی تمام چینلز میں کوریج ہوئی۔ لیکن کراچی کی طرح ان کی کوریج نہ ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں ایک ان علاقوں میں چینلز کے رپورٹر نہ ہونا بڑی وجہ ہے۔'

2۔ انسانی ہمدری بمقابلہ تنقید

کئی سالوں سے کراچی میں بارش کی رپورٹنگ پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی کوئی زیادہ غیرمعمولی بات نہیں ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں جانی نقصان کراچی کے مقابلے میں کافی زیادہ رہا۔ اسی وجہ سے ماہرین کے مطابق فطری بات ہے کہ اتنے بڑے جانی نقصان پر عمومی طور پر ردعمل افسوس اور غم کا حاوی رہتا ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کی کوریج میں قدرتی آفت کا رنگ زیادہ نمایاں پایا گیا۔

لیکن کراچی میں ایسے قدرتی مسائل سے نمٹنے کی بڑی صلاحیت کی توقع ہوتی ہے۔ لہذا ایسا نہ ہونے پر قدرتی ردعمل تشویش اور غصے کا ہی ہوتا ہے۔ یہی رنگ کراچی پر غالب نظر آتا ہے۔

مبصرین کا اصرار ہے کہ انتظامی طور پر کراچی ملک کے دیگر شہروں سے یکسر مختلف ہے۔ کراچی میں سندھ حکومت کے زیر انتظام علاقوں کے علاوہ وفاقی حکومت اور  وفاقی اداروں کے زیر انتظام بھی بڑے علاقے ہیں۔ لیکن رپورٹنگ کے دوران ان اداروں کے زیر انتظام علاقوں میں نکاسی آب نہ ہونے پر بھی سندھ حکومت کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔'

بقول رزاق ابڑو 'قانونی طور پر یہ ادارے اپنے حدود میں صفائی رکھنے، نکاسی آب سمیت تمام کاموں کے خود ذمہ دار ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہیں کراچی میں کارپوریٹ سوشل ذمہ داری کی مد میں ترقیاتی کاموں میں مدد نہ کرنے کی بھی شکایت کی۔ 'جیسے تھر میں کوئلہ پر کام کرنے والی کمپنیز نے مقامی آبادی کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی کرتی ہیں۔ سانگھڑ میں گیس اور تیل نکالنے والی کمپنیز ضلعے کے مرکزی روڈ تعمیر کرائے، لیکن کراچی میں ایسا دکھائی نہیں دیتا۔'

3۔ آبادی ، سوشل میڈیا پر موجودگی کا فرق

پاکستان میں 2023 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی دو کروڑ افراد سے زیادہ تھی۔ اس کے مقابلے میں اسی مردم شماری نے سوات اور بونیر کی کل آبادی تیس لاکھ سے زیادہ بتائی ہے۔ لہذا بونیر اور سوات جیسے علاقے انٹرنٹ کے صارفین کے اعدادوشمار میں بھی کراچی سے کافی پیچھے ہیں۔

بونیر اور سوات جیسے علاقوں کی نسبت موبائل فون سروس کی کوالٹی اور کوریج میں بھی کراچی زیادہ بہتر پایا گیا ہے۔

ماضی میں بھی کراچی جیسے بڑے شہروں کے مسائل کو دور دراز کے علاقوں سے زیادہ میڈیا کوریج ملتی رہی ہے۔ میڈیا ماہرین مانتے ہیں کہ دور دراز دیہی علاقوں کے بڑے مسائل کو بعض اوقات کراچی کے قدرے چھوٹے مسئلے کے مقابلے میں کوئی خاص اہمیت نہیں ملتی۔

کراچی میں عام طور پر بارش کے بعد سوشل میڈیا پر شہر کے مختلف علاقوں میں کھڑے پانی، راستوں میں پھنسے لوگوں کی ویڈیوز قدرے جلد وائرل ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث شروع ہو جاتی ہے اور اکثر صارفین دل کا غبار نکالتے ہیں۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں۔

2006 سے ماحولیات پر کام کرنے والے جریدے فروزاں کے ایڈیٹر محمود عالم خالد کہتے ہیں کہ کراچی، ساحلی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے محل و وقوع کے لحاظ سے تمام دیگر شہروں سے یکسر مختلف ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ 'کراچی میں چھوٹے بڑے نالوں کی تعداد 500 سے زائد ہے۔ کیا ملک کے کسی اور شہر میں اتنی تعداد میں نالے ہیں؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان نالوں میں سیوریج کا پانی ڈال دیا گیا، اب یہ نالے مستقل چلنے لگے۔

'جب نکاسی آب نہ ہونے کے باعث شہر ڈوبے گا تو میڈیا تو کوریج کرے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ کوریج ان کے خالف ہے تو سمجھتے رہیں، مگر اس میں کوئی سازش نہیں ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان