تقسیم کے بعد: ’ہندو آئے اور فرش کھود کر سونا لے گئے‘

تقسیم کے بعد کئی واقعات ایسے ہوئے کہ لوگوں نے نئے بننے والے ملکوں کی سرحد پار کر کے اپنی ملکیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

مشرقی پنجاب سے پہنچنے والے مہاجرین (پبلک ڈومین)

’اماں اماں، پولیس والے کے ساتھ ایک ہندو آیا تھا اور وہ ممانی کے کمرے میں گیا اور وہاں فرش سے اینٹیں ہٹائیں اور سونا نکالا اور چلا گیا۔‘

یہ بات ہے 1950 کے آس پاس کی اور شہر ہے صوبہ پنجاب کا جھنگ۔ تقسیم ہند میں لاکھوں افراد بھارت سے پاکستان آئے اور پاکستان سے بھارت کی جانب سفر اختیار کیا۔ سرحدی لکیر کی دونوں جانب قتل و غارت میں لوگوں نے ہجرت کی۔ تاہم پنجاب کے شہر جھنگ میں ایک دو واقعات ایسے ہوئے جو اب بھی سنیں تو یقین نہیں آتا۔

تقسیم ہند کے بعد پٹیالہ سے چند خاندان ہجرت کر کے جھنگ پہنچے اور چھ سے سات خاندانوں نے ایک ہندو کے مکان میں رہائش اختیار کی۔

یہ تمام خاندان مکانوں میں صاف ستھرائی کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ صفیہ کی بہن بھی جھنگ میں مقیم تھیں اور انہی چھ سات خاندانوں میں سے ایک عورت ان کی بہن کے یہاں کام کیا کرتی تھی۔

صفیہ نے بتایا: ’ان خاندانوں کی عورتیں صبح سے شام تک گھروں میں کام کیا کرتی تھیں اور ایک میری بڑی بہن زہرہ کے بھی کام کرتی تھیں۔ اب اتنا عرصہ ہو گیا ہے مجھےاس عورت کا نام نہیں یاد۔‘

صفیہ کا کہنا ہے کہ وہ جھنگ صدر میں رہا کرتی تھیں اور ان کو ڈاکٹر دیو راج کا گھر الاٹ ہوا تھا۔ اس سے کچھ ہی فاصلے پر پٹیالہ سے آئے ہوئے یہ خاندان رہا کرتے تھے۔

’ایک دن کام کرنے والی نے میری بہن کو بتایا کہ اس گھر میں ان کے ہمراہ دیگر خاندان والوں نے اپنے اپنے کمروں کے فرش کھودنے شروع کر دیے ہیں۔ میری بہن نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں؟ تو اس نے جواب دیا کہ سنا ہے چند گلیاں چھوڑ کر ایک ہندو واپس اپنے مکان آیا اور چند اینٹیں ہٹائیں اور اس میں چھپایا ہوا سونا نکال کر لے گیا۔ لیکن میری بہن کے یہاں کام کرنے والی نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر رہی۔‘

صفیہ نے کہا، ’میری نندیں مجھ پر بڑا زور دے رہی ہیں کہ میں بھی کمرے کا فرش کھودوں، کیا معلوم کمرے میں سونا چھپایا ہو۔ لیکن میں ایسا نہیں کر رہی کہ سارا دن گھروں میں کام کرو اور شام کو جب تھکے ہارے کمرے میں پہنچو تو فرش کھودنا شروع کر دو اور رات کو اسی مٹی کے ڈھیر پر سو جاؤ۔‘

صفیہ کے بقول جب ان کی بہن نے اس عورت سے پوچھا کہ کیا معلوم اس کے کمرے ہی سے سونا نکل آئے تو تھکی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کہتی ہے کہ ’جی قسمت میں ہوا تو مل جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قسمت میں تو سونا تھا لیکن اس عورت کے نہیں بلکہ اس ہندو کے جو گھر بار چھوڑ کر انڈیا ہجرت کر گیا۔

چند ہی روز بعد اس عورت کی ایک نند کی بیٹی بھاگی آئی اور کہا، ’اماں اماں، ایک ہندو ایک پولیس والے کے ساتھ آیا تھا اور وہ ممانی کے کمرے میں گیا۔ اس نے زمین سے چند اینٹیں ہٹائیں اور اس میں دبا ہوا سونا نکالا اور چلا گیا۔‘

اس عورت کا کہنا تھا کہ اس کے رشتہ داروں نے بڑی ملامت کی کہ اگر فرش کھود لیتی تو سونا اس کا ہوتا لیکن اس کا اس وقت بھی یہی کہنا تھا، ’قسمت میں نہیں تھا تو نہیں ملا۔‘

لیکن مکانوں کی دیواروں اور فرش میں سونے کی تلاش کیسے اور کیوں شروع ہوئی؟

جھنگ صدر میں قاضیاں والی مسجد اور دبکراں دا محلہ کے قریب ہی ایک مکان میں مجالس منعقد کی جاتی تھیں۔ اس کے ایک حصے میں مرد اور دوسرے حصے میں خواتین کے بیٹھنے کا انتظام ہوا کرتا تھا۔

حسن نے تقسیم ہند کے بعد جھنگ ہی میں رہائش اختیار کی۔ ان کے بقول لگ بھگ 1950 میں ایک ہندو پاکستانی پولیس اہلکار کے ہمراہ جھنگ آیا۔ وہ سیدھا اپنے مکان میں گیا۔ یہ وہی مکان تھا جس میں اب مجالس منعقد کی جاتی تھیں۔

’وہ ہندو اس کمرے میں گیا جہاں زنانہ مجالس ہوا کرتی تھیں۔ اس نے دیوار میں سے چند اینٹیں ہٹائیں اور کپڑے میں لپٹا سونا نکالا اور جانے لگا۔

’سنا ہے کہ مکان میں مقیم لوگوں نے اس ہندو کو روکا اور بڑی پرتکلف چائے پلائی۔ مکان کے مکینوں کا کہنا تھا کہ اس ہندو نے جس کمرے کی دیوار سے اینٹیں ہٹائیں وہاں پر علم پڑے تھے۔ اس نے بڑے احترام کے ساتھ ایک دو علموں کو ہٹایا اور دیوار میں سے اپنا سامان نکالا۔‘

اس واقعے کے بعد تو جیسے اس محلے اور اس کے آس پاس کے محلوں میں سونے کی تلاش شروع ہو گئی۔

میری والدہ کہتی ہیں کہ ان کے بھائی بھی اس مکان میں مقیم لڑکوں کو جانتے تھے، ’جب ہمیں اس بات کا پتہ چلا تو میں، میری بڑی بہن اور میرا بھائی مل کر اپنے مکان کے پچھلے حصے میں واقع صحن گئے۔ اس کے بیچ میں اینٹوں سے ایک ڈیزائن بنا ہوا تھا جو پھول کی شکل کا تھا۔‘

میری والدہ کہتی ہیں کہ ان تینوں نے اینٹیں ہٹائیں اور مٹی کھودنی شروع کر دی، ’ہمارے بھائی نے کہا تھا کہ اینٹوں کے نیچے مٹی اور مٹی کے نیچے اینٹیں آئیں تو ان کو ہٹاؤ تو سونا دبایا ہو گا۔

’مٹی کھودی جا رہی تھی کہ اچانک اینٹیں نمودار ہو گئیں۔ ہم نے شور مچا دیا کہ سونا مل گیا سونا مل گیا۔ شور سن کر ہمارے والد بھی آ گئے اور انھوں نے کہا کہ سونا ملے یا نہ ملے مکان کی بنیادیں ضرور ہلا دو گے۔ فوراً گڑھا بھرو اور اینٹیں دوبارہ رکھ دو۔‘

یہ واقعات صرف پاکستان ہی میں پیش نہیں آئے۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والی امیتا بجاج نے تقسیم ہند کی یادوں کے لیے بنائی گئی ویب سائٹ انڈین میموری پراجیکٹ میں اپنے خاندان کی کہانی بیان کی ہے کہ کیسے ان کے دادا تقسیم کے وقت اپنے خاندان کے ہمراہ سیالکوٹ سے جالندھر گئے اور جالندھر میں ان کو چھ بیڈ رومز کی حویلی الاٹ کی گئی جس کی مالیت 1947 میں ایک لاکھ 35 ہزار روپے تھی۔

امیتا لکھتی ہیں کہ تقسیم کے دس سال بعد ان کی دادی بازار سے واپس آ رہی تھیں کہ دیکھا حویلی کے باہر پولیس موجود ہے اور ایک گاڑی جس کے شیشوں پر پردے لگے ہوئے ہیں۔ ’میری دادی جلدی سے حویلی میں داخل ہوئیں اور میرے والد سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے۔ میرے والد نے بتایا کہ اس حویلی کے سابق مالک پاکستان سے آئے ہیں اور وہ اپنی اشیا لے کر جانا چاہتی ہیں۔

’اس پر میری دادی نے شور برپا کر دیا کہ جس وقت وہ اس حویلی میں آئے تھے تو اس میں ایک پردہ بھی نہیں تھا۔ لیکن پاکستان سے آئی خواتین نے قدرے سختی سے کہا کہ وہ باورچی خانے کے ساتھ والے کمرے میں جانا چاپتی ہیں۔

’میری دادی لے گئیں۔ ان خواتین نے ایک دیوار کو زور سے دھکا دیا اور وہ گر گئی اور اس کے پیچے سے سونا، قیمتی زیورات، چاندی اور سونے کے سکے نکلے۔ ان پاکستانی خواتین نے سامان لیا اور روانہ ہو گئیں۔‘

لیکن چند افراد ایسے بھی تھے جو صرف اپنے مکان کی یاد میں دوبارہ واپس آئے۔

دسمبر 1947 کی بات ہے کہ لاہور کے علاقے کرشن نگر میں زہرہ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ رہ رہی تھیں۔ اچھے دن ہوتے تھے کہ مرکزی دروازہ صبح کھلتا تو رات ہی کو بند کیا جاتا تھا۔ کرشن نگر کے بازار میں دو منزلہ مکان میں زہرہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ بیٹھی تھی۔ رات دس بجے کا وقت تھا کہ اچانک مکان کے باہر شور شرابا شروع ہو گیا۔ پہلے منزل پر بیٹھے زہرہ کہ والد، بھائی اور دو کزنز باہر دوڑے کہ کیا ہوا۔

’محلے والوں نے بتایا کہ انھوں نے ایک ہندو کو ہمارے مکان کے اندر جاتا دیکھا ہے۔ میرے والد اور بھائی فوراً اندر آئے اور جب سیڑھیوں کے قریب دیکھا تو پیچھے کر کے ایک پتلا دبلا بندہ چھپا ہوا تھا۔

’پہلے تو محلے والوں نے کہا کہ اس کو مارہ لیکن زہرہ کے بقول ان کے والد نے کہا کہ نہیں اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ آیا کیوں ہے؟ اس ہندو سے جب پوچھا تو اس نے بتایا کہ ’میں مہاجر کیمپ میں رہتا ہے اور اس کو آج اپنے مکان کی بڑی یاد آئی تو وہ چھپ کر مہاجر کیمپ سے نکلا اور یہاں آ گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ