سعودی عرب نے عالمی بحرانوں میں نہ صرف اپنی روایتی غیر جانب داری کو برقرار رکھا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ثالثی کی سفارت کاری بھی کی ہے۔
اس نے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان رابطے کی لائنیں دوبارہ کھول دی ہیں اور خود کو ایک قابل اعتماد، غیر جانب دار میزبان کے طور پر پیش کیا جو مخالفین کو اکٹھا کرنے کے قابل ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن کے درمیان الاسکا سربراہی اجلاس کے نتائج سے متعلق گفتگو عالمی میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔
لیکن الاسکا کے اجلاس کو ممکن بنانے والے سعودی عرب کی اس پر چھاپ موجود رہی ہے۔ اگرچہ سربراہی اجلاس میں وہ باضابطہ طور پر موجود نہیں تھا لیکن اس کی بنیادی سہولت کار کے طور پر موجودگی واضح طور پر محسوس کی گئی۔
ریاض نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے درمیان اس سال فروری میں پہلی ملاقات کی میزبانی کی، جس نے ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان برف توڑنے کی بنیاد رکھی۔
یہ ملاقات محض پروٹوکول ہینڈ شیک نہیں تھی۔ اس نے مذاکراتی راستے کی بنیاد رکھی جس نے وہ چینل دوبارہ کھولے جو برسوں سے بند تھے۔
وہاں سے سعودی خطوط پر ’الاسکا کے خاکے‘ نے شکل اختیار کرنا شروع کی۔
جدید سعودی ریاست کی جنم بھومی دریہ میں ملاقات کے چند دن بعد ٹرمپ ریاض پہنچے، جہاں انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔
وہیں، امریکی صدر نے روس کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے زمین کی تیاری میں سعودی عرب کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے زور دیا کہ ’سعودی عرب کے بغیر ہم آج ماسکو کے ساتھ نئے راستے پر گامزن نہیں ہوتے۔‘
اس تناظر میں الاسکا سمٹ کو ایک بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر سعودی عرب کے ابھرتے ہوئے کردار کے ثبوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کا اثر و رسوخ اس کے علاقے تک محدود نہیں بلکہ عالمی توازن کے مرکز تک پھیلا ہوا ہے۔
یہی چیز چام ہاؤس انسٹی ٹیوٹ نے دریہ میں دونوں ممالک کے درمیان پہلی ملاقات میں دیکھی، جب اس نے نوٹ کیا کہ ریاض کی ’مثبت غیرجانب داری‘ کی پالیسی نے اسے ’روسی اور یوکرینی حکام کے ساتھ انمول قریبی ذاتی تعلقات استوار کرنے کے قابل بنایا۔
OPEC+ کے اندر تیل کی قیمتوں کو منظم کرنے کے لیے ریاض کا روس کے ساتھ جاری تعاون نے اس کو ایک غیر جانب دار ساتھی کے طور پر صلاحیت کو تقویت بخشی ہے۔
واشنگٹن میں مقیم وائٹ ہاؤس کے تجزیہ کار مرہ البقائی نے الاسکا اجلاس میں سعودی کردار اور ٹھوس بنیادوں پر اس کے قیام کو ’اہم‘ قرار دیا۔
ان کا اصرار تھا کہ ’سعودی عرب نے تیاریوں کی قیادت کی اور ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک علاقائی اور بین الاقوامی امن شراکت داری قائم کی، جس نے اپنی دوسری مدت میں سعودی عرب کو اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے طور پر منتخب کیا۔
’یہ کوششیں ٹھوس بنیاد میں تبدیل ہوئیں جس نے ٹرمپ اور پوتن کے درمیان تاریخی الاسکا سربراہی اجلاس کے لیے راہ ہموار کی، جس کے نتائج کا دنیا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے اور اس کے اثرات، مشرق وسطیٰ اور بین الاقوامی طاقت کے توازن، یوکرین، مشرق وسطیٰ اور عالمی طاقت کے توازن پر پڑیں گے۔‘
اس کردار نے سعودی عرب کو، تجزیہ کاروں کے لیے، الاسکا میں ’موجود لیکن غیر حاضر‘ بنا دیا۔ یہ سربراہی اجلاس ان پُلوں کے بغیر ممکن نہیں تھا جو ریاض نے بنائے ہیں۔
لیکن یہ کردار اپنے سیاسی فوائد کے باوجود، اپنی قیمت بھی رکھتا ہے۔
چتھم ہاؤس نے نوٹ کیا کہ یہ نیا مشن اپنے ساتھ ’ایک نیا وزن، ذمہ داری اور جوابدہی بھی رکھتا ہے۔ نہ صرف عالمی برادری بلکہ عرب عوام سے بھی بڑھتی ہوئی توقعات ہوں گی۔
’اس کردار کو برقرار رکھنے کے لیے ہمت، عزم، اور خطرہ مول لینے اور تنقید کو قبول کرنے کی آمادگی کی ضرورت ہوگی۔‘
اگرچہ سربراہی اجلاس یوکرین کے بارے میں کسی حتمی معاہدے پر نہیں پہنچ سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم اس نے تصادم کو کم کرنے کے لیے فریقین کی رضامندی کے ابتدائی اشارے دیے ہیں۔
یہیں سے سعودی عرب کے کردار کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کیونکہ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان بات چیت کے دروازے کھلنے سے کئی مسائل پر امید بحال ہوئی ہے، جیسے یوکرین میں کشیدگی میں کمی کا امکان اور جوہری جنگ کے خدشات پر قابو پانا۔
مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ ملاقات ’ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان مفاہمت کی کھڑکی کھولنے کا باعث بن سکتی ہے تاکہ پرسکون کوششوں کی حمایت کی جا سکے۔‘
سمٹ کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے فاکس نیوز نے لکھا ’پوتن کے واضح علاقائی دعوے واشنگٹن کے لیے سیاسی، قانونی اور اخلاقی سرخ لکیر بنے ہوئے ہیں۔‘
امریکہ کی کیتھولک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور یوکرین میں جنگ کے بارے میں ایک کتاب ’کولیزنز‘ کے مصنف مائیکل سی کِمج کا خیال ہے کہ ’یورپی لوگ ٹرمپ کے اتار چڑھاؤ، یورپ اور یوکرین کے لیے ان کی ہمدردی کی کمی اور پوتن کے لیے ان کی عجیب و غریب محبت سے واقف ہیں۔‘
اگرچہ یوکرین بنیادی توجہ کا مرکز ہو سکتا ہے لیکن دیگر مسائل بھی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں، جیسے کہ ایران اور شام۔ اس سربراہی اجلاس نے ان علاقوں میں روسی اور امریکی اثر و رسوخ کو متوازن کرنے کا موقع فراہم کیا، جب واشنگٹن نے سعودی عرب کی درخواست پر کچھ پابندیاں اٹھا لی تھیں، جبکہ ریاض کی سربراہی میں علاقائی شراکت داری کے حصے کے طور پر دمشق میں حکومت کی حمایت جاری رکھی تھی۔
سربراہی اجلاس ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب ایک بڑا سفارتی کھلاڑی بن گیا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ عربیہ میں شائع ہو چکی ہے۔