ملائیشیا کے وزیر اعظم نے ہفتے کو پاکستان اور افغانستان کے وزارئے اعظم سے علیحدہ علیحدہ رابطہ کر کے حالیہ سرحدی جھڑپوں اور دوحہ میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر بات چیت کی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ملائیشین ہم منصب انور ابراہیم کو پاکستان اور افغانستان کی سرحدی صورت حال سے آگاہ کیا۔
بیان کے مطابق شہباز شریف نے بتایا ’پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے، تاہم اسے افغان سرزمین سے ہونے والی سرحد پار دہشت گردی کا سامنا ہے۔‘
دوسری جانب افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ایکس پر ایک بیان میں بتایا کہ آج ملائیشیا کے وزیر اعظم اور افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن آخند کے درمیان رابطہ ہوا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ملا محمد حسن آخند اور ملائیشیا کے وزیرِاعظم انور ابراہیم نے دوطرفہ تعلقات اور ’پاکستان کی جانب سے افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی‘ کے مسئلے پر بات کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ افغان وزیراعظم نے انور ابراہیم کو بتایا ہے کہ ’قومی دفاع کے وزیر کی سربراہی میں دوحہ میں پاکستانی وفد کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔‘
دوحہ میں مذاکرات
پاکستان کے سرکاری میڈیا پاکستان ٹی وی نے ہفتے کو رپورٹ کیا کہ افغانستان اور پاکستان کے وفود میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حالیہ جھڑپوں اور سرحد پار دہشت گردی پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ مذاکرات پاکستانی وقت کے مطابق دو بجے شروع ہوئے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے آج ایک بیان میں بتایا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد افغان حکام سے سرحد پار دہشت گردی کے فوری خاتمے اور سرحد پر امن و استحکام کی بحالی کے لیے عملی اقدامات پر غور کرے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کشیدگی نہیں چاہتا، تاہم افغان طالبان حکام پر زور دیتا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں اور پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو تسلیم کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی کے خلاف کارروائی کرے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان، قطر کی ثالثی کی کوششوں کو سراہتا ہے اور اُمید کرتا ہے کہ یہ مذاکرات خطے میں امن و استحکام کے فروغ میں معاون ثابت ہوں گے۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا نے بتایا وفد میں خواجہ آصف کے علاوہ انٹیلی جنس چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک شامل ہیں۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے قومی ٹی وی چینل آریانا نیوز کو بتایا کہ وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس ملا عبدالحق وثیق مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر گئے ہیں۔
افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ’جیسے وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ آج دوحہ میں مذاکرات ہوں گے، اسی تناظر میں وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کا وفد آج دوحہ پہنچ گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ شب پاکستان فوج نے پکتیکا میں عوام لوگوں پر بمباری کی جس میں متعدد عام لوگ شہید اور زخمی ہوگئے ہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ’اسلامی امارت پاکستان فوج کی جانب سے تجاوز اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کا جواب دینا اپنا حق سمجھتی ہیں لیکن اپنی مذاکراتی ٹیم کی عزت کی خاطر مجاہدین کو مزید کسی حملے سے منع کرتی ہے۔
’ہم ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ افغانستان دو طرفہ حل اور خطے کے امن پر یقین رکھتا ہے لیکن جو بھی ہو رہا ہے، یہ پاکستان فوج کے تجاوزات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان رواں ہفتے متعدد سرحدی جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ ہیں۔ اس دوران دونوں اطراف درجنوں افراد جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔
15 اکتوبر کی شام دونوں ملکوں کے درمیان 48 گھنٹے کے سیزفائر کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ مدت جمعے کی شام کو ختم ہو چکی۔
پاکستان کے عسکری ذرائع نے جمعے کو بتایا تھا کہ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران عسکریت پسندوں نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے اندر متعدد حملے کیے جنہیں سکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا۔
عسکری ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی فوج نے جوابی کارروائی میں قبائلی اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان سے متصل افغانستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسند تنظیم حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس میں گل بہادر گروپ کی قیادت سمیت 70 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے۔
مرنے والوں میں خودکش حملہ آور بھی شامل تھے۔
دوسری جانب افغان حکام نے کہا کہ پاکستان نے جمعے کی رات افغان سرزمین پر فضائی حملے کیے جن میں کم از کم 10 افراد جان سے گئے۔
طالبان کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ’پاکستان نے جنگ بندی توڑ دی اور صوبہ پکتیکا کے تین مقامات پر بمباری کی۔ افغانستان جوابی کارروائی کرے گا۔‘
صوبائی ہسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی حملوں میں 10 شہری مار گئے اور 12 زخمی ہوئے، جن میں دو بچے شامل ہیں۔
اسی طرح افغانستان کرکٹ بورڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ پکتیکا کے علاقے شرنہ میں ایک دوستانہ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والے تین مقامی کرکٹرز ارغون واپسی پر حملے میں جان سے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان کرکٹ بورڈ نے جان سے جانے والوں کی شناخت ’کبیر، صبغت اللہ اور ہارون‘ کے نام سے کرتے ہوئے مزید بتایا کہ اس حملے میں پانچ دیگر افراد بھی جان سے گئے۔
پاکستان الزام عائد کرتا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں انڈین سرپرستی شامل ہے، تاہم کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو کابینہ اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نے خلوص دل سے افغانوں کے لیے کام کیا، لیکن ’حالیہ واقعات کے بعد صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا۔‘
انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’جس طرح وہاں سے دہشت گرد آپریٹ کر رہے ہیں، ان کو کھلی چھٹی ہے اور وہ نہ صرف پاکستان میں بے گناہ شہریوں کو شہید کر رہے ہیں، افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں کو شہید کیا، قانون نافذ کرنے والوں پولیس اہلکاروں کو شہید کیا۔‘
پاکستان پر حملے اور جوابی کارروائی کے بارے میں شہباز شریف نے کہا کہ ’حالیہ واقعات کے بعد صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا۔ اس سے پہلے نائب وزیر اعظم ایک سے زیادہ مرتبہ کابل جا چکے، وزیر دفاع جا چکے اور دوسرے حکام کابل گئے اور ان کے ساتھ بڑے اچھے طریقے سے بات کی کہ ہم ہمسایہ ملک ہیں ہم نے قیامت تک ساتھ رہنا ہے۔
’بدقسمتی سے تمام کاوشوں کے باوجود یہ نہ ہوا اور مکمل طور پر ہندوستان کی شے پر جس طرح یہ حملہ ہو رہا تھا پاکستان پر تو ان کے (افغانستان) کے وزیر خارجہ متقی دہلی میں تھے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ’مجبوراً افواج پاکستان کو جواب دینا پڑا جو ہم نے دیا۔‘
پاکستان اور افغانستان میں جھڑپیں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ انڈیا کے دوران ہی شروع ہوئیں، جس کے دوران نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور اگر پاکستان کو ایسا شبہ ہے تو اسلام آباد کو اس کے ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔