افغان طالبان سے مذاکرات، وزیر دفاع اور انٹیلی جنس چیف آج دوحہ جائیں گے: سرکاری میڈیا

افغانستان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس ملا عبدالحق وثیق افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر روانہ ہو گئے ہیں۔

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف 26 دسمبر 2016 کو چینی اور افغان ہم منصب کے ساتھ بیجنگ میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان کے سرکاری میڈیا نے ہفتے کو رپورٹ کیا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور انٹیلی جنس چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک حالیہ سرحدی کشیدگی کے تناظر میں افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے آج قطر کے دارالحکومت دوحہ روانہ ہوں گے۔

افغانستان کی وزارت دفاع نے ہفتے کو قومی ٹی وی چینل آریانا نیوز کو بتایا کہ وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس ملا عبدالحق وثیق، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر روانہ ہو گئے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان رواں ہفتے متعدد سرحدی جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ ہیں۔ اس دوران دونوں اطراف درجنوں افراد جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔

 15 اکتوبر کی شام دونوں ملکوں کے درمیان 48 گھنٹے کے سیزفائر کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں جمعے (17 اکتوبر) کی شام مزید 48 گھنٹے تک توسیع کر دی گئی، جو اب دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ایک پاکستانی وفد پہلے ہی دوحہ پہنچ چکا ہے، جبکہ افغان وفد کے ہفتے کو قطری دارالحکومت پہنچنے کی توقع ہے۔ 

تاہم پاکستان ٹی وی نے جمعے کو رپورٹ کیا کہ پاکستانی عسکری ذرائع نے ان خبروں کی تردید کی جن میں کہا گیا کہ پاکستانی وفد اس وقت افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے دوحہ میں موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق عسکری ذرائع نے بتایا کہ وفد کل (ہفتے کو) روانہ ہوگا، اور یہ خبریں کہ پاکستانی وفد پہلے سے دوحہ میں موجود ہے، بے بنیاد ہیں۔

پاکستان کے عسکری ذرائع نے جمعے کو بتایا تھا کہ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران عسکریت پسندوں نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے اندر متعدد حملے کیے جنہیں سکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا۔

عسکری ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی فوج نے جوابی کارروائی میں قبائلی اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان سے متصل افغانستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسند تنظیم حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس میں گل بہادر گروپ کی قیادت سمیت 70 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے۔ مرنے والوں میں خودکش حملہ آور بھی شامل تھے۔

دوسری جانب افغان حکام نے کہا کہ پاکستان نے جمعے کی رات افغان سرزمین پر فضائی حملے کیے جن میں کم از کم 10 افراد جان سے گئے۔

طالبان کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا: ’پاکستان نے جنگ بندی توڑ دی اور صوبہ پکتیکا کے تین مقامات پر بمباری کی۔ افغانستان جوابی کارروائی کرے گا۔‘

صوبائی ہسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی حملوں میں 10 شہری مار گئے اور 12 زخمی ہوئے، جن میں دو بچے شامل ہیں۔

اسی طرح افغانستان کرکٹ بورڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ پکتیکا کے علاقے شرنہ میں ایک دوستانہ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والے تین مقامی کرکٹرز ارغون واپسی پر حملے میں جان سے گئے۔

افغانستان کرکٹ بورڈ نے جان سے جانے والوں کی شناخت ’کبیر، صبغت اللہ اور ہارون‘ کے نام سے کرتے ہوئے مزید بتایا کہ اس حملے میں پانچ دیگر افراد بھی جان سے گئے۔

پاکستان الزام عائد کرتا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں انڈین سرپرستی شامل ہے، تاہم کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو کابینہ اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نے خلوص دل سے افغانوں کے لیے کام کیا، لیکن ’حالیہ واقعات کے بعد صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا۔‘

انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’جس طرح وہاں سے دہشت گرد آپریٹ کر رہے ہیں، ان کو کھلی چھٹی ہے اور وہ نہ صرف پاکستان میں بے گناہ شہریوں کو شہید کر رہے ہیں، افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں کو شہید کیا، قانون نافذ کرنے والوں پولیس اہلکاروں کو شہید کیا۔‘

پاکستان پر حملے اور جوابی کارروائی کے بارے میں شہباز شریف نے کہا کہ ’حالیہ واقعات کے بعد صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا۔ اس سے پہلے نائب وزیر اعظم ایک سے زیادہ مرتبہ کابل جا چکے، وزیر دفاع جا چکے اور دوسرے حکام کابل گئے اور ان کے ساتھ بڑے اچھے طریقے سے بات کی کہ ہم ہمسایہ ملک ہیں ہم نے قیامت تک ساتھ رہنا ہے۔ بدقسمتی سے تمام کاوشوں کے باوجود یہ نہ ہوا اور مکمل طور پر ہندوستان کی شے پر جس طرح یہ حملہ ہو رہا تھا پاکستان پر تو ان کے (افغانستان) کے وزیر خارجہ متقی دہلی میں تھے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا: ’مجبوراً افواج پاکستان کو جواب دینا پڑا جو ہم نے دیا ہے۔‘

پاکستان اور افغانستان میں جھڑپیں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ انڈیا کے دوران ہی شروع ہوئیں، جس کے دوران نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور اگر پاکستان کو ایسا شبہ ہے تو اسلام آباد کو اس کے ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان