پاکستان فوج نے افغانستان میں حافظ گل بہادر گروپ کو نشانہ بنایا: عسکری ذرائع

عسکری ذرائع کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں فضائی کارروائی کے دوران گل بہادر گروپ کی قیادت سمیت 70 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے۔

پاکستان کے نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کا ایک اہلکار 16 ستمبر، 2020 کو بلوچستان کے سرحدی قصبے قلعہ سیف اللہ میں افغانستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہ پر ایک بکتر بند گاڑی پر کھڑا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے عسکری ذرائع نے جمعے کی رات کہا کہ پاکستان فوج نے قبائلی اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان سے متصل افغانستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسند تنظیم حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔

عسکری ذرائع کے مطابق گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران عسکریت پسندوں نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے اندر متعدد حملے کیے جنہیں سکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان فوج کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں 100 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے۔

عسکری ذرائع نے مزید کہا کہ آج بھی گل بہادر گروپ نے شمالی وزیرستان میں خود کش حملہ آور گاڑی کے ذریعے حملہ کیا، جس میں ایک سپاہی جان سے گیا جبکہ دیگر زخمی ہوئے۔

بعد ازاں، انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک اور ہدفی فضائی کارروائی کی گئی، جس میں گل بہادر گروپ کی قیادت سمیت 70 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے۔ مرنے والوں میں خودکش حملہ آور بھی شامل تھے۔

’پاکستان نے جنگ بندی توڑ دی‘

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے افغان حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ پاکستان نے جمعے کی رات افغان سرزمین پر فضائی حملے کیے جن میں کم از کم 10 افراد جان سے گئے۔

طالبان کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ’پاکستان نے جنگ بندی توڑ دی اور صوبہ پکتیکا کے تین مقامات پر بمباری کی۔ افغانستان جوابی کارروائی کرے گا۔‘

صوبائی ہسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی حملوں میں 10 شہری مار گئے اور 12 زخمی ہوئے، جن میں دو بچے شامل ہیں۔

افغانستان کرکٹ بورڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس علاقے میں ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والے آٹھ کھلاڑی جان سے گئے۔

دوحہ مذاکرات تک سیز فائر

اس سے قبل آج تین پاکستانی سکیورٹی حکام اور ایک افغان طالبان ذرائع نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا تھا کہ پاکستان اور افغانستان نے باہمی رضامندی سے 48 گھنٹے کی جنگ بندی میں توسیع پر اتفاق کیا ہے، جو اب دوحہ میں ہونے والے مجوزہ مذاکرات کے اختتام تک برقرار رہے گی۔ 

ان ذرائع نے روئٹرز سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ انہیں میڈیا سے گفتگو کی اجازت نہیں۔

ذرائع کے مطابق ایک پاکستانی وفد پہلے ہی دوحہ پہنچ چکا ہے، جبکہ افغان وفد کے ہفتے کو قطری دارالحکومت پہنچنے کی توقع ہے۔ 

پاکستان ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی عسکری ذرائع نے تاہم ان خبروں کی تردید کی جن میں کہا گیا کہ پاکستانی وفد اس وقت افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے دوحہ میں موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق عسکری ذرائع نے بتایا کہ وفد کل روانہ ہوگا، اور یہ خبریں کہ پاکستانی وفد پہلے سے دوحہ میں موجود ہے، بے بنیاد ہیں۔

بدھ کو شروع ہونے والی عارضی جنگ بندی نے کئی دنوں تک جاری رہنے والی شدید لڑائی کو روکا، جس میں درجنوں افراد جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے آریانہ ٹی وی کو بتایا کہ افغان سکیورٹی فورسز کو آگاہ کیا گیا ہے کہ جب تک پاکستان سے حملہ نہ ہو، ہماری طرف سے حملہ نہیں ہو گا۔

’ہم جھگڑا نہیں چاہتے لیکن اگر افغانستان پر حملہ کیا جاتا ہے تو دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ہم بات چیت سے معاملات کو حل کرنے کے حق میں ہیں۔‘

انہوں نے بتیا ’ہمارا وفد دوحہ نہیں گیا لیکن جانے پر آمادگی ہے کہ جائیں اور مذاکرات کی میز پر پالیسی رکھیں اور وہاں پر بات چیت ہوں اور پتہ چلے گا کہ کن باتوں پر بات چیت ہو گی لیکن ہماری پالیسی واضح ہے کہ ہم جھگڑا نہیں چاہتے۔‘

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے درمیان 48 گھنٹے کی جنگ بندی جمعے کی شام کو ختم ہونا تھی۔

بدھ کو افغان حکام نے کہا تھا کہ جنگ بندی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پاکستان اسے توڑ نہ دے، لیکن انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ معاہدہ صرف 48 گھنٹوں کے لیے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعرات کو کہا تھا کہ جنگ بندی کے تسلسل کے لیے اب ’گیند طالبان حکومت کے کورٹ میں ہے۔‘

انہوں نے وفاقی کابینہ کو بتایا تھا ’اگر وہ 48 گھنٹوں میں مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے جائز مطالبات پورے کرتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔‘

ترجمان شفقات علی خان نے آج ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا تھا ’ہم ایک عارضی جنگ بندی میں ہیں اور اسے پائیدار بنانے اور تعلقات میں طویل المدتی استحکام لانے کے لیے سفارتی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں — یہی ہمارا بڑا مقصد ہے۔‘

افغان سرحدی قصبے سپن بولدک کے رہائشیوں نے، جہاں لڑائی سب سے زیادہ شدید تھی، جمعے کی صبح معمولات زندگی بحال ہونے کی اطلاع دی۔

35 سالہ نانی نے اے ایف پی کو بتایا ’سب کچھ ٹھیک ہے، سب کچھ کھلا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’مجھے خوف نہیں، لیکن ہر شخص کا خیال مختلف ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کہیں اور بھیج دیں گے کیونکہ صورتحال اچھی نہیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ کچھ ہونے والا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا