پاکستان کے افغانستان کے لیے سابق خصوصی نمائندے اور سفیر آصف درانی کا کہنا ہے کہ برسراقتدار افغان طالبان کئی مرتبہ اسلام آباد کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروا کر بعد میں مکر گئے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان صورت حال کشیدہ ہیں جہاں گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی جس کا جواب دیا گیا۔
دونوں ممالک کے درمیان ان حالیہ جھڑپوں کے بعد 15 اکتوبر کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ افغانستان کی درخواست پر 48 گھنٹوں کے لیے عارضی سیز فائر کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جبکہ پاکستان کے سرکاری میڈیا نے جمعرات کی شب تصدیق کی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے اسلام آباد میں ایک خصوصی پوڈکاسٹ میں افغانستان کی مشکل گتھی کو سلجھانے میں مدد چاہی تو انہوں نے دو ایسے واقعات یاد دلائے جو ان کے بقول افغان طالبان کے اپنے بیان سے مکر جانے کو ثابت کرتے ہیں۔
اس بابت پہلا واقعے انہوں نے دوہزار تئیس کی پاکستان، چین اور افغانستان کےوزرا کا سہ فریقی اجلاس قرار دیا جس کے اختتام پر مشترکہ بیان میں انہوں نے ٹی ٹی پی اور ای ٹی آئی ایم کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ’وہ بڑا واضح تھا کہ طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی صاحب نے یقین دہانی کرائی کہ ایکشن لیں گے لیکن پھر اس سال کابل میں سہہ فریقی اجلاس میں وہ بالکل پھر گئے۔‘
آصف درانی کا کہنا تھا کہ وہ سال 2023 کے وعدے پر بات کرنے کو تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کہتے تھے ’ہم نے پہلے کیا تھا تو ہمارے لیے مشکل ہو گئی تھی۔ تو ہم اس کے لیے تیار نہیں۔ میرے نزدیک طالبان نے اس طرح سے اپنی کریڈیبلیٹی کو زک پہنچائی ہے۔‘
انہوں نے اس قسم کا دوسرا واقع افغان طالبان کے امیر شیخ ہبت اللہ کی جانب سے بظاہر ایک حکم کو قرار دیا جس میں انہوں نے پاکستان پر حملوں کو حرام قرار دیا تھا۔ ’مجھے خود طالبان کے وزرا نے یہ کہا تھا کہ امیر المومنین ہبت اللہ نے پاکستان پہ حملے کو حرام قرار دیا تھا۔ انہوں نے لفظ حرام استعمال کیا تو یہ بہت بڑی بات تھی۔ یہ یقین دہانی تقریباً تین اوقات پہ کرائی گئی لیکن حملے پھر بھی بڑھتے گئے۔
آصف درانی نے سوال کیا کہ وہ اس صورت حال سے کیا نتیجہ نکالیں؟ ’یا تو ہبت اللہ نے یہ حکم جاری ہی نہیں کیا، یا وہ طالبان وزرا مجھ سے جھوٹ بول رہے تھے یا پھر جو ٹی ٹی پی ہے انہوں نے ہبت اللہ کی نافرمانی کی۔ ٹی ٹی پی نے ہبت اللہ کے ہاتھ پہ بیعت کی ہوئی ہے تو بیعت کو توڑنے کی بھی اپنی سزا ہوتی ہے تو اس صورت میں بھی ان کو ایکشن لینا چاہیے تھا۔‘
افغانستان کی کئی دھائی سے الجھی گتھی کے بارے میں سابق سفیر کا کہنا تھا کہ فل الحال کسی کے پاس اس کے حل کی کوئی چابی نہیں ہے۔ ’پورے افغانستان پہ طالبان قابض ہیں لیکن یہ ان کا قبضہ جو ہے کیا واقعی ایک خودمختار ریاست والا قبضہ ہے یا پھر وہ خود ابھی بھی اپوزیشن موڈ میں ہیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آصف درانی کا اصرار تھا کہ دیکھنے والے کو پہلا شک یہ پڑے گا کہ آیا طالبان حکومت افغانستان میں ہے یا نہیں ہے۔ ’سوال یہی ہے کہ وہ آیا ٹی ٹی پی کے ساتھ ملی ہوئی ہے یا وہ اسے کنٹرول کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی؟‘
ایک سوال کے جواب میں کہ آیا اس کا مطلب ہے کہ افغانستان کے اندر بھی ایسے پہلو ہیں جو طالبان کے مکمل کنٹرول میں نہیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ طالبان اب ’ڈینایل موڈ‘ میں آ گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے یعنی اس سے بڑھ کر اور کیا ستم ظریفی، بدقسمتی ہوگی۔ ’وہ آپ سے کہہ کے مکر جائیں وہ آپ سے یہ وعدہ کر کے ان کو کوئی اب ماننے کو تیار نہیں کم از کم میں تو اس کو اب اس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ آیا وہ سنجیدہ لوگ ہیں یا ان کی اپنی صلاحیت کا مسئلہ ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا طالبان اپنے آپ کو اب بھی ایک گوریلا گروپ سمجھ رہے ہیں یا وہ گورنمنٹ میں آ کر اب تبدیل ہوئے ہیں؟ آصف درانی کا کہنا تھا کہ وہ نہیں بدلے۔ ’نہیں یہ چیز ان کے لیے ہی نقصان دے ہوگی۔ ملک میں غربت کا گراف بڑھ گیا ہے۔ اس وقت تقریباً 52 فیصد آبادی کا بین القوامی امداد پر انحصار ہے۔ یہ کس طرح کی آزادی ہے کہ لوگ خوش نہیں۔ آپ کی فتح اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے کہ جب لوگ خوش ہوں۔ اگر ایسا نہیں تو یہ مسئلہ ہمارے لیے بھی چیلنج بن جاتا ہے۔‘
امیر خان متقی نے دہلی میں کہا کہ شکایت صعرف پاکستان کو کیوں ہے باقی پانچ ہمسایہ ممالک کو کیوں نہیں تو جواب میں آصف درانی نے کہا کہ ’متقی صاحب کو اپنی جوگرافیہ کا پتہ ہونا چاہیے کہ یہاں پر منقسم قبائل ہیں۔ یہاں جو آنے جانے کی سہولت تھی وہ تو افغانوں کو باقی پانچ ہمسایوں کی جانب سے نہیں تھی۔‘
امریکہ کے کسی کردار کے بارے میں آصف درانی کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے تھا ابھی معلوم نہیں کہ ہم اتحادی ہیں یا نہیں ہیں۔ ’ہم نان ایلائی تو اگلے دن ہی ڈکلیئر کر دیا گئے جب امریکہ نے پاکستان کے بارے میں ایڈوائزر ایشو کر دی جس سے ہم انڈایریکٹ پانبدی کے شکار ہو گئے۔ دوسرا امریکہ کی افغانستان میں ابھی دلچسپی نہیں ہے۔ اور مستقبل میں بھی مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس طرح سے آئیں گے۔
بگرام کا فوجی اڈہ واپس لینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کیا وہ would they commit their boots on ground سوال تو یہ ہے کہ وہ اپنے دس ہزار فوجی لے آئیں گے۔ ایسا تو نظر نہیں آتا اور پھر کیا طالبان اس کو مانیں گے۔ اگر وہ مانیں گے تو پھر ان میں اور اشرف غنی اور کرزئی میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا۔
امیر خان متقی کے انڈیا کے دورے کے دوران پاکستان میں غم و غصے کو بےجا قرار دیتے ہوئے سابق سفیر نے کہا کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے ضرور دورہ کرے لیکن اگر انڈیا جس طرح سے ٹی ٹی پی مالی مدد کر رہا ہے تو اس لحاظ سے طالبان حکومت کو بھی تشویش ہونی چاہیے۔ ’دو ہزار سات سے جب سے ٹی ٹی پی وجود میں آئی تو انڈیا افغان پروکسیز کے ذریعے ان کو فنانس کر رہا ہے۔ انڈیا اگر طالبان کے ساتھ یقجہتی کا اظہار کر رہا ہے وہ کوئی افغانستان کی محبت میں نہیں کر رہا اس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنی ہیں۔
انہوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کو بدقسمتی دیتے ہوئے اس کے جلد از جلد حل کی ضرورت پر زور دیا۔ ’میں تو یہ مشورہ دوں گا کہ ہمارے جو لیڈرز ہیں وہ ان طالبان قیادت سے بات کریں کیونکہ پاکستان بڑا ملک ہے اور اس کو بڑا پن دکھانا چاہیے۔‘
پاکستان کی ٹی ٹی پی سے جنگ بیانیے کی جنگ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جب وہ ان سے پوچھے ہیں کہ آئین کی کون سی شق غیر اسلامی ہے تو وہ بحث کر ہی نہیں سکتے۔ ’وہ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔‘
آصف درانی کا ماننا تھا کہ طالبان کے بیانیے سے دنیا واقف ہے انہیں بتانے کتی ضرورت نہیں لیکن وہ اپنے جنگجوؤں جنگجو جہالت کے ذریعے بھرتی کر رہے ہیں۔ جہالت ہی کے ذریعے اس کو دوام ملے گا لیکن وہ جب باقی مہذب دنیا میں بیٹھیں گے تو ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اپنے ملک میں بھرپور کارروائی کرکے انہوں نے افغانستان میں موجفود ای ٹی آئی ایم کو بےاثر کر دیا ہے۔ ’ٹی ٹی پی آپ کی سرحد کے اندر ہیں تو ان کو نیوٹرلائز کرنا ہے ان کو سموک آؤٹ کرنا ہے۔ اس سے افغانستان میں بیٹھے لوگ غیرموثر ہو جائیں گے۔ ان کی آکسیجن ختم ہو جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ جب تک قانون کی حکمرانی اپنے ملک میں نہیں لایں گے اور ان لوگوں کو آپ ایکسپوز نہیں کریں گے تو یہ مسئلہ رہے گا۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ آصف درانی کا کہنا تھا کہ اس کے حل میں کچھ وقت لگے گا۔ ’آپ نے اپنے گھر کو ان آرڈر رکھنا ہے اور اس میں سب سے بڑی چیز میں تقرار کے ساتھ کہتا ہوں آپ کو قانون کی حکمرانی یقینی بنانی ہوگی۔‘