شدت پسند گروہوں کے لیے تشہیر آکسیجن کی مانند ہے کیونکہ ان کا بنیادی مقصد صرف خوف و ہراس پھیلانا نہیں بلکہ اپنی وجوہات، شکایات اور سٹریٹجک مقاصد کی طرف توجہ مبذول کرانا بھی ہوتا ہے۔
دہشت گردی، بطور عملی پروپیگنڈا، ایک ایسا ابلاغی ذریعہ ہے جس کے پرتشدد مظاہروں کے لیے سامعین کا ہونا ضروری ہے۔ گیلووے میڈیا جہاد کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ ’یہ نفسیاتی جنگ ہے جو تحریروں، تصویروں اور علامتوں پر مشتمل ہوتی ہے، جنہیں دہشت گرد تنظیمیں وسیع پیمانے پر پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔‘
اہم بات یہ ہے کہ میڈیا وار کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروہوں کو بھرتی کرنے، انتہا پسندی کو فروغ دینے اور مالی وسائل اکٹھا کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے 2021 سے ہر سال اپنی تنظیمی ساخت میں اصلاحات کی ہیں۔ ٹی ٹی پی نے خاص طور پر اپنی انفارمیشن وارفیئر پر بھرپور توجہ دی ہے۔
یہ دہشت گرد تنظیم اپنے عسکری مہم کو پاکستان میں درست ثابت کرنے اور پاکستانی ریاست کی جانب سے اسے اکثریت پسندی (انتہا پسند باغیوں کا خطرہ) قرار دے کر اس کی قانونی حیثیت کو کمزور کرنے کی کوششوں کا جواب دینے کے لیے اپنے نظریاتی بیانیے کو نہایت احتیاط سے پھیلاتی ہے۔
اس طرح کی مستردگی کے باوجود اپنے بیانیے کو قائم رکھنے اور نظریاتی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے ٹی ٹی پی اپنے پروپیگنڈا ونگ ’عمر میڈیا‘ پر بھاری انحصار کرتی ہے۔
یہ میڈیا ونگ عوامی رائے کو سیاسی نوعیت کے مسائل پر متاثر کرنے میں سٹریٹجک کردار ادا کرتا ہے۔ عمر میڈیا کے تحت، ٹی ٹی پی کی پروپیگنڈا سرگرمیاں مزید منظم ہوگئی ہیں اور مواد و پیداوار کے معیار میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے۔
عمر سٹوڈیو 2006 میں طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے نام پر رکھا گیا تھا مختلف پروپیگنڈا چینلز کے ایک غیر مربوط مجموعے کے طور پر قائم ہوا۔ یہ چینلز ٹی ٹی پی کی عسکری مہمات، جن میں خودکش حملے بھی شامل تھے، کی ویڈیوز ریکارڈ اور شائع کرتے تھے۔
یہ حملے پاکستان کی فوج کے خلاف افغانستان - پاکستان سرحدی علاقے میں اور افغانستان میں طالبان کی مدد کے لیے سابقہ انٹرنیشنل سکیورٹی سسٹنس فورس کے خلاف کیے جاتے تھے۔
2010 میں اس کا نام بدل کر ’عمر میڈیا‘ رکھا گیا۔ اس وقت ٹی ٹی پی کا پروپیگنڈا مواد سی ڈیز، ڈی وی ڈیز، پمفلٹس اور یو ایس بی ڈرائیوز کے ذریعے پھیلایا جاتا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ عمر میڈیا نے اردو زبان میں بھی پروپیگنڈا شائع کرنا شروع کر دیا اور اپنے تبصروں کو متنوع موضوعات تک وسیع کر دیا۔
داعش خراسان کا 2015 میں عروج عمر میڈیا کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس سے قبل ٹی ٹی پی، جو طالبان کی نظریاتی شاخ اور القاعدہ کی شاگرد تھی، پاکستان کے جہادی منظر نامے پر غالب تھی۔
تاہم، ٹی ٹی پی کے بعض ناراض دھڑوں سے وجود میں آنے والی داعش خراسان نے اس غلبے کو چیلنج کیا۔ اس نے طالبان کے افغانستان تک محدود جہاد اور ٹی ٹی پی کے پاکستان پر مرکوز موقف پر سوال اٹھائے۔
یہ رقابت نظریے، وسائل اور مقامی شدت پسند دھڑوں کی وفاداری برقرار رکھنے کے حوالے سے شدت اختیار کر گئی۔ ٹی ٹی پی نے داعش خراسان کے عالمی سنی خلافت کے دعوے کا جواب ایک 66 صفحات پر مشتمل اردو تردیدی تحریر سے دیا۔
انفارمیشن وارفیئر میں آگے رہنے کے لیے عمر میڈیا نے اپنے پروپیگنڈے کو مزید بہتر بنایا اور 2016 میں اردو جریدہ ’مجلة طالبان‘ کا آغاز کیا۔
اس کے بعد 2021 میں افغان طالبان کی فتح کے بعد عمر میڈیا کی تازہ ترین شکل سامنے آئی، جو اب ٹی ٹی پی کی نام نہاد وزارتِ اطلاعات کے تحت کام کر رہی ہے۔
اس وقت سے یہ باقاعدگی سے ’مجلة طالبان‘ شائع کر رہی ہے، جس میں ڈیزائن اور مواد دونوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ دو نئے رسائل صدائے طالبان اور مجلة بناتِ خدیجت الکبریٰ بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔
ٹی ٹی پی تقریباً 14 ویڈیو سیریز بھی نشر کر رہی ہے اس کے علاوہ، یہ ایک خبرنامہ منزل بھی شائع کرتی ہے، جس میں ٹی ٹی پی کی عسکری سرگرمیوں پر مبنی مضامین اور رپورٹس شامل ہوتی ہیں۔
ابتدا میں منزل ہر دس دن بعد شائع کیا جاتا تھا، بعد میں یہ ہفتہ وار اشاعت میں تبدیل ہوا اور حال ہی میں یہ روزانہ کی بنیاد پر شائع کیا جا رہا ہے، جس کے مواد میں بھی بہتری لائی گئی ہے۔
یہ سب ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی پروپیگنڈا صلاحیتوں کو نمایاں کرتا ہے۔
عمر میڈیا نے اپنی سرگرمیوں کو کئی زبانوں میں پھیلا دیا ہے تاکہ پاکستان کے مختلف نسلی گروہوں کے درمیان اپنے نظریاتی اثر کو بڑھایا جا سکے۔ اس نے اپنے آڈیو ویژول مواد اور مطبوعات کے معیار میں بھی بہتری لائی ہے۔
جنوری میں ٹی ٹی پی کی نئی تنظیمی ساخت کے تحت آڈیو، ویڈیو، رسائل، ایف ایم ریڈیو اور سوشل میڈیا کے لیے پانچ علیحدہ حصے قائم کیے گئے، جن کی نگرانی ایک نو رکنی کمیشن کرتا ہے۔
2023 میں ٹی ٹی پی کے فیصلے کے تحت القاعدہ کے سابق پروپیگنڈا کار شعیب اقبال چیمہ عرف چوہدری منیب الرحمٰن جٹ کو شامل کیا گیا، جو اس سے پہلے ’السحاب‘ کے میڈیا آپریشنز چلا چکے تھے۔
اس فیصلے نے عمر میڈیا کو ایک طاقتور عسکری پروپیگنڈا مرکز بنا دیا، جو داعش خراسان کے ’العظیم فاؤنڈیشن‘ کا حریف بن گیا۔
چوہدری منیب الرحمٰن جٹ اس وقت عمر میڈیا کے ڈائریکٹر اور ٹی ٹی پی کے خود ساختہ وزیرِ اطلاعات ہیں، جبکہ نویدالحسن یوسفزئی ان کے نائب ہیں۔
ایک وسیع تر میڈیا ڈھانچے اور بہتر پروپیگنڈا صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ، عمر میڈیا اب کثرت سے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ نیوز بلیٹنز بھی شائع کر رہا ہے، جن میں اردو، پشتو اور انگریزی کے علاوہ سندھی، پنجابی اور بلوچی زبانوں میں تراجم اور وائس اوورز شامل ہوتے ہیں۔ اسی دوران، اپریل میں ٹی ٹی پی نے اپنے سوشل میڈیا ونگ کو بھی ازسرِنو منظم کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2025 میں ٹی ٹی پی نے انگریزی اور اردو میں مصنوعی ذہانت (AI) سے تیار کردہ نیوز بلیٹنز کے ذریعے اپنی مصنوعی ذہانت لسانی اور ڈیجیٹل موجودگی کو افغانستان - پاکستان سرحدی علاقے سے آگے بڑھا کر خاص طور پر پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں تک پھیلا دیا ہے۔
مزید یہ کہ AI کو بروئے کار لاتے ہوئے پروپیگنڈا کو اردو، انگریزی اور پشتو کے ساتھ ساتھ براہوی، سندھی اور پنجابی جیسی علاقائی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جا رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کے لیے ٹیلی گرام ایک پسندیدہ پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں اور ابلاغ کر سکتی ہے، کیونکہ اس میں انکرپشن کی سہولت موجود ہے اور مواد کی نگرانی اور ضابطہ بندی کے اصول کمزور ہیں۔ ٹیلیگرام اور وٹس ایپ پر ٹی ٹی پی کے حامیوں کے کئی اردو اور پشتو گروپس موجود ہیں جن میں سینکڑوں سبسکرائبرز شامل ہیں۔
انفرادی اکاؤنٹس بھی موجود ہیں جو ٹی ٹی پی کا مواد شیئر کرتے اور اس کے نظریاتی بیانیے کو فروغ دیتے ہیں اور یہ اکاؤنٹس کھلے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس، فیس بک پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
تاہم داعش خراسان کے برعکس، جو اپنے حامیوں کو خود مواد تیار کرنے کی اجازت دیتی ہے، عمر میڈیا صرف سرکاری پروپیگنڈا مواد کی دوبارہ اشاعت کی اجازت دیتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher