مدرسہ نظام کی اصلاح: مشکلات اور مستقبل کی سمت

اگر مدارس کو محض سکیورٹی خطرہ سمجھ کر ان کی رجسٹریشن یا سالانہ آڈٹ جیسے تقاضوں کو ’اصلاح‘ سمجھا جائے گا تو یہ صرف وقتی کامیابیاں ہوں گی۔

پاکستانی مدرسے کے طلبا 29 مارچ 2011 کو کراچی کے ایک بڑے اسلامی مدرسے میں اپنی قومی کرکٹ ٹیم کی فتح کے لیے اجتماعی دعائیہ تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں (آصف حسن/ اے ایف پی)

پاکستان میں مدرسہ اصلاحات کو ماضی میں سنجیدہ چیلنجز کا سامنا رہا ہے، اور یہ اصلاحات زیادہ تر ملا جلا نتیجہ ہی دے سکیں۔

اس کی بڑی وجوہات میں اعتماد اور وضاحت کی کمی، نیز اس مسئلے کو صرف سکیورٹی (سلامتی) کے محدود زاویے سے دیکھنا شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے تاکہ اسے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔

پاکستان میں مدرسہ اصلاحات دو مختلف وجوہات کی بنا پر نہایت اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ مدارس سے فارغ التحصیل تمام طلبا کے لیے مساجد یا مدارس میں امام، نائب امام، مؤذن یا استاد کی حیثیت سے روزگار حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے مدارس کے طلبا کو کسی پیشے یا ملازمت کے لیے عملی مہارت فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی قابلِ روزگار حیثیت برقرار رہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ مدارس پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایک اہم خلا کو پُر کرتے ہیں، کیونکہ وہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا کو مفت تعلیم، رہائش اور خوراک فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر ان مدارس کی اصلاحات درست انداز میں کی جائیں، تو یہ حکومت کو ملک میں مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔

بصورتِ دیگر، غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان انتہا پسند بیانیے کے جال میں پھنس سکتے ہیں، جنہیں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شدت پسند گروہ پرکشش پروپیگنڈے کے ذریعے فروغ دیتے ہیں۔

یوں مدارس، بعض شدت پسندی اور فرقہ وارانہ نفرت کے واقعات کے باوجود، دہشتگرد گروہوں کے اثر و رسوخ کے خلاف مذہبی بیداری کی ایک اہم فصیل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اسی لیے، مدرسہ اصلاحات کو سکیورٹی پر مبنی اُس نقطہ نظر سے گریز کرنا چاہیے جو ستمبر2001 کے حملوں کے بعد عام ہوا، جب مدارس کو ایک سکیورٹی خطرہ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

ایسی ڈونر (امداد کنندہ) پر مبنی اصلاحاتی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں کیونکہ انہوں نے سیکولرازم کو بطور حل پیش کیا، جو کہ روایتی مذہبی معاشرے میں قبول کروانا نہایت مشکل کام تھا۔ تاریخی سیاق و سباق میں مدارس کا مقصد مذہبی روایت کی پاکیزگی اور سالمیت کو برقرار رکھنا رہا ہے۔

دوسرے الفاظ میں، مدارس سیکولرازم کی ضد ہیں، اور اگر انہیں سیکولر بنیادوں پر اصلاحات کا نشانہ بنایا جائے تو یہ اسلام کے خلاف سازش سمجھی جائے گی، جس سے شکوک، بداعتمادی اور سخت مزاحمت جنم لے گی۔

مزید برآں، امدادی اداروں پر انحصار کرنے والی مدرسہ اصلاحات کی عمر محدود ہوتی ہے، کیونکہ جیسے ہی فنڈنگ ختم ہوتی ہے، یہ اقدامات اپنی رفتار اور اثر کھو بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا، پاکستان میں مدرسہ اصلاحات کی کوششیں مقامی، فطری اور زمینی سطح سے اُبھرنے والی ہونی چاہییں، اور سکیورٹی پر مبنی نقطہ نظر سے گریز کیا جانا چاہیے۔

مدارس کا بنیادی مقصد دینی (نہ کہ سیکولر) تعلیم فراہم کرنا ہے، اور اصلاحات بھی اسی دائرہ کار میں ہونی چاہییں، جس میں اتحاد تنظیماتِ مدارس (ITMD) کے نمائندوں سے مشاورت اور ان کی بھرپور شمولیت شامل ہو۔

کوئی بھی بالائی سطح سے مسلط کردہ ’ایک حل ہر جگہ کے لیے‘ جیسی پالیسی کو مزاحمت کا سامنا ہوگا اور وہ بالآخر ناکام ہو جائے گی۔

چونکہ امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے اور عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جُڑی روایتی بیانیہ بازی ماند پڑ چکی ہے، اب پاکستان کے لیے موقع ہے کہ وہ مدرسہ اصلاحات پر نظرثانی کرے۔ مدرسہ اصلاحات کا ایجنڈا مقامی، اسلامی اور قومی اقدار پر مبنی ہونا چاہیے، جو گہرے مشاورتی عمل اور علما کے ساتھ سنجیدہ مکالمے سے تشکیل پائے۔

مندرجہ ذیل نکات مدرسہ اصلاحات کا مقامی ایجنڈا مرتب کرتے وقت نہایت اہم ثابت ہو سکتے ہیں:

سب سے پہلے، مدارس کی اصلاحات کو سکیورٹی کے تناظر سے دیکھنے کے بجائے ایک تعلیمی اور سماجی مسئلے کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔ جب تک مدارس کو بطور سکیورٹی خطرہ دیکھا جاتا رہے گا، اصلاحاتی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔

مدارس کو خطرہ کے طور پر دیکھنا ایک ذہنی تعصب کی علامت ہے جو مدارس کو درپیش اصل مسائل کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ مدارس کو بطور مسئلہ دیکھنے کے بجائے، جو مسائل مدارس کو درپیش ہیں اُن پر توجہ مرکوز کرنا اصلاحات کا مرکز ہونا چاہیے۔

اگر مدارس کو محض ایک سکیورٹی خطرہ سمجھ کر ان کی رجسٹریشن یا سالانہ آڈٹ رپورٹ جیسے تقاضوں کو ’اصلاح‘ سمجھا جائے گا تو یہ صرف وقتی کامیابیاں ہوں گی، جو مدارس کو اسلامی تعلیم کے مراکزِ علم و فضیلت بنانے جیسے طویل المدتی اور سٹریٹجک مقاصد کو نقصان پہنچائیں گی۔

لہٰذا، مدارس کو ازسرنو اس انداز میں تشکیل دینا کہ وہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر معاشرے کو دینی تعلیم فراہم کر سکیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ مذہبی علما اور مدارس کی قیادت کے ساتھ جامع، سنجیدہ اور مسلسل مکالمہ کیا جائے۔ 

دوسرا، مدرسہ اصلاحات کے لیے اگر کسی بھی حد تک سیکولر سوچ یا حل کو فروغ دیا گیا تو وہ فوراً الٹا اثر کرے گا۔ مدرسہ اصلاحات کا ایجنڈا بناتے وقت حقیقت پسندانہ اہداف کا تعین نہایت ضروری ہے۔ مدارس سکول نہیں ہوتے، اور سکول مدارس نہیں ہوتے۔ لہٰذا اگر اصلاحات کی کوششیں مدارس کو سکولوں میں تبدیل کرنے پر مرکوز ہوں گی تو یہ منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔

اس کے بجائے، پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ مدارس، سرکاری سکولوں اور ووکیشنل (فنی تربیت) مراکز کے درمیان پل قائم کریں تاکہ مدرسہ کے طلبہ کو مرکزی تعلیمی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔

مدرسے کے طلبہ اگر اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا چاہیں یا کسی فنی مہارت کے ذریعے پیشہ ورانہ زندگی اپنانا چاہیں، تو ان کے لیے دونوں راستے کھلے ہونے چاہییں۔

ایک طرف تو یہ اقدامات مدرسہ اور سکول کے طلبہ کے درمیان موجود سوچ کے فرق کو کم کرنے میں مدد دیں گے، دوسری طرف حکومت کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ کم خرچ اور کم مزاحمت کے ساتھ مدرسہ طلبہ کو مرکزی تعلیمی نظام سے روشناس کرایا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسرا، پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شدت پسندی اور انتہا پسندی جیسے تصورات کی حقیقت کیا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو مذہبی عدم برداشت اور فرقہ وارانہ تقسیم جیسے مسائل کا سامنا ہے، لیکن مغرب کے بنائے گئے انتہا پسندی اور شدت پسندی کے معیارات پاکستان کی زمینی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مثلاً پاکستانی معاشرے میں مذہب سے وابستگی میں اضافہ، جیسے خواتین کی بڑی تعداد کا حجاب پہننا یا مردوں کا داڑھی رکھنا، مغربی نظریات کے مطابق شدت پسندی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایک مسلم معاشرے میں یہ مذہبی رویے معمول کا حصہ ہیں اور ان سے شدت پسندی کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔

لہٰذا، مدرسہ اصلاحات سے پہلے ’شدت پسندی‘ اور ’انتہا پسندی‘ جیسے تصورات کی مقامی اور سیاق و سباق کے مطابق تفہیم ضروری ہے۔ اگر ایسے بنیادی اور نظریاتی مباحث کا فقدان رہا تو مدرسہ اصلاحات کی کوششیں صرف دائرے میں گھومتی رہیں گی۔

نائن الیون کے بعد پاکستان میں جو مدرسہ اصلاحات متعارف کرائی گئیں وہ سکیورٹی پر مبنی تھیں، جنہوں نے مدارس کو محض سکیورٹی خطرہ سمجھا اور عملی طور پر کچھ حاصل نہ کر سکیں۔ ان اصلاحات کو مدرسہ انتظامیہ نے گہرے شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا اور شدید مزاحمت کی۔

اب جب پاکستان مدرسہ اصلاحات پر نظر ثانی کر رہا ہے، تو وہ دیگر مسلم ممالک جیسے سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے تجربات سے سیکھ سکتا ہے۔ تاہم، کوئی بھی اصلاحاتی ایجنڈا تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب اس سے پہلے مدارس کے نمائندوں سے جامع مکالمہ کیا جائے، جس میں عمل درآمد کا طریقہ کار بھی واضح ہو تاکہ کسی قسم کی مزاحمت یا رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher       

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر