وولر جھیل واپس اپنے جوبن پر

علامہ اقبال نے برصغیر کی سب سے بڑی میٹھے پانی والی اس جھیل کو دیکھا تھا، یہاں بیٹھ کر مستقبل کے کئی خواب سجائے تھے اور کشمیر کو قدرت کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں کا احساس دلایا تھا۔

14 مئی 2025 کی اس تصویر میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سری نگر کے شمال میں بانڈی پورہ میں وولر جھیل کے کنارے اپنے مویشیوں کو جھیل میں اگنے والی گھاس ڈال رہے ہیں (توصیف مصطفیٰ / اے ایف پی)

ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک / خضر سوچتا ہے وولر کے کنارے

علامہ اقبال کا یہ شعر محض خیالی تصور نہیں تھا بلکہ انہوں نے ایشیا کے دوسرے سب سے بڑے شفاف پانی والے اس جھیل کو دیکھا تھا، یہاں بیٹھ کر مستقبل کے کئی خواب سجائے تھے اور کشمیر کو قدرت کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں کا احساس دلایا تھا۔ 

کشمیر کی تاریخی بے بسی جہاں اقبال کے ذہن و دل پر چھائی ہوئی تھی وہیں یہاں کی روحانی اور رومانی خوبصورتی کو اجاگر کر کے عوام میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی کوشش بھی کی تھی-

ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ اقبال جب بھی کشمیر آئے تو ڈل جھیل یا وولر کے کنارے بیٹھ کر اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے تھے لیکن وقت کے تھپیڑوں نے کشمیر کی خوبصورتی کے ساتھ تازہ پانی والے وولر جھیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ 

92 میں شدید سیلاب کے باعث اس جھیل کی ہیت ہی بدل گئی۔ اس میں تہہ در تہہ دھول مٹی اتنی جم گئی تھی کہ شفاف پانیوں میں اگنے والی لذیذ ترین سبزی ندرو بھی ناپید ہو گئی۔

جھیل میں کھلنے والے کنول پوری دنیا میں مشہور تھے مگر تقریبا 30 برس تک اس کے شفاف پانیوں پر کبھی کوئی کنول نہیں کھلا بلکہ اس کے کنارے تک نکیلے گھاس پھوس اور ریت مٹی میں غائب ہو گئے۔ 

گھاس اور مٹی کے  بیچ میں کہیں پر پانی کی ایک پتلی سی دھار نظر آتی تھی۔ 

90 کے پرآشوب دور میں جھیل کے عقب میں ہلاکتوں کی کئی وارداتیں ہوئیں جب کیچڑ اور گھاس سے بھرے پانیوں میں سے لاشیں نکالی جاتی تھیں۔

وولر کے ذرے ذرے میں وادی کی دلسوز داستان رقم ہے اور یہ ہماری تاریخی پستی کا ضامن بھی ہے۔ 

قدرت کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ اتنے برسوں کے بعد اچانک  اس جھیل میں ہر جانب رنگ برنگے کنول کھلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، سنگھاڑوں کے پکے ہونے کا انتظار ہے اور کنول پودوں کی ککڑی سے ندرو کی فصل تیار ہو رہی ہے۔

جن سینکڑوں خاندانوں کا روزگار اجڑ گیا تھا وہ بےصبری سے اس کے ساتھ دوبارہ جڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 

15 برس پہلے جموں و کشمیر کی سرکار نے وولر کے تحفظ اور دیکھ بھال کے لئے ایک الگ محکمہ قائم کیا جس نے ماہرین ماحولیت کی مدد سے ایک مربوط اور منظم پروگرام ترتیب دیا۔

بڑے پیمانے پر جدید ترین مشینوں سے دھول مٹی کو نکالا گیا، کناروں کو صاف کیا گیا اور نچلی تہہ میں کنول پھول کے بیج بوئے گئے۔ 

گذشتہ دس برسوں میں جھیل سے تقریبا 79 لاکھ مکعب میٹر دھول مٹی نکالی گئی جو اس کی نچلی تہہ میں بیٹھ گئی تھی۔

 ماہرین کے مطابق اس جھیل کی صفائی اور پانیوں کے بہاؤ کو اپنی پوزیشن میں واپس لانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، اس کے چشموں پر سے ریت ہٹا کر پانی کے بہاؤ کو واپس اپنی سمت دینا ایک اور چلینج ہے، جس کو عنقریب ہی مکمل کیا جا رہا ہے۔

ایک مقامی ماہر ماحولیات کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک بار پھر ہمیں اس نعمت سے نوازا ہے جس کی حفاظت کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’چند برسوں کی محنت اور لگن سے کنول دوبارہ کھلنے شروع ہو گئے ہیں اور اس پورے خطے کی رونقیں بحال ہو گئی ہے۔‘

وولر جھیل سیاحوں کا ایک بڑا مرکز ہی نہیں بلکہ اس کے آس پاس درجنوں گاؤں کا روزگار وابستہ ہے۔

ماہی گیروں کی ایک بڑی تعداد جھیل کے قریب رہتی ہے جو جھیل کے پانیوں میں سے تقریبا 40 اقسام کی مچھلیاں پکڑ کر ان کا کاروبار کرتے ہیں۔ انڈیا کے بڑے ہوٹلوں میں وولر کی مچھلی مخصوص غذا کے طور پر پیش کی جاتی رہی ہے۔ 

شفاف پانی کا جھیل وولر شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ اور سوپور کے درمیان خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ اس کو دریائے جہلم کے تقریباً 25 چشموں سے پانی دستاب ہوتا ہے۔

گو کہ یہ جھیل مغلیہ دور میں خاصی اہمیت کی حامل رہی البتہ مغل بادشاہوں نے یہاں تعمیرات بنانے سے گریز کیا تھا۔ 

جھیل کے وسط میں زینہ لانک کے نام سے ایک مصنوعی جزیرہ قائم ہوا تھا جو 15 ویں صدی میں مقامی بادشاہ زین العابدین نے تعمیر کروایا تھا۔ 

جھیل کبھی فضائی مہمانوں سے خالی نہیں رہتی، بلکہ 50 سے زیادہ قسموں کے پرندے دور دراز علاقوں سے ہجرت کر کے جھیل میں سکونت اختیار کرتے ہیں۔  

یورپی ماہرین پرند ان کے مطالعہ کے لیے جھیل کے قریب مہینوں گزارتے تھے جو سلسلہ پر تشدد حالات کی وجہ منقطع ہو گیا۔ 

وولر کے قریب بانڈی پورہ میں آباد عبدل غنی کہتے ہیں کہ ’یہ ایک معجزہ ہے جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جتنی مٹی دھول، ریت یا گھاس یہاں سے روزانہ نکالی جا رہی تھی تو محسوس ہوتا تھا کہ یہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔

’لیکن اچانک اس برس جھیل کے پانیوں پر کنول کے بےشمار پھول نظر آئے، کسی کو پہلے یقین نہیں آیا پھر گاؤں کے گاؤں کنارے پر پہنچ کر دل کو تسلی کرنے لگے کہ واقعی ایک معجزہ ہوا ہے جو اس جھیل کی شان رفتہ بحال ہو گئی۔‘ 

جھیل کا رقبہ تقریبا 200 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی مزید صفائی پر کئی برس درکار ہوں گے۔ 

وولر کے تحفظ اور بحالی سے متعلق محکمہ کے مطابق ابھی کئی منصوبے روبہ عمل لائے جا رہے ہیں تاکہ اس کو واپس اپنی شکل میں لایا جائے اور ہمالہ کے چشموں کو پھر ابلنے کا موقع ملے۔ 

وادی کا مقبول ترین روزنامہ آفتاب خضر سوچتا ہے وولر کے کنارے کے عنوان سے اپنا ایڈیٹوریل لکھا کرتا تھا جو وادی کی سیاسی، معاشی، ماحولیاتی اور عسکری حالات کی بھرپور عکاسی کرتا تھا اور جس سے سرکار کی نیندیں اڑ جاتی تھیں۔ اس ایڈیٹوریل کے باعث کشمیر کی نئی نسلیں جھیل وولر سے متعارف ہوتی گئیں۔ 

اب نہ اس اخبار کا تیز طرار اور دوٹوک بات کہنے والا وہ ایڈیٹر ہے اور نہ صحیح حالات کی عکاسی کرنے والا کوئی اخبارمگر پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے وولر کو زندہ کر دیا، اس کی خوبصورتی بحال کردی اور شفاف پانیوں پر کھلنے والے کنول کی پتیوں پر رقم مظلوم کشمیریوں کی داستان دوبارہ پڑھنے کا موقع دیا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر