نہ کچھ کہہ اور نہ لکھ پا رہا تھا کیونکہ میں خود کو بھی ان لوگوں کی طرح قصور وار سمجھتا ہوں جنہوں نے حمیرا اصغر کی خیریت دریافت کرنے کی گذشتہ ایک سال میں زحمت نہیں کی۔
حمیرا کے حالات، خاندانی معاملات اور کیریئر کے بارے میں چند لوگ ہی زیادہ جانتے تھے، جن میں ہم نیوز کے سابق کری ایٹیوو ہیڈ ناصر تہرانی بھی شامل تھے۔
2018 کے انتخابات سے پہلے بلاول بھٹو کا انٹرویو کرنے بلاول ہاؤس لاہور گیا تو ناصر تہرانی بھی ساتھ گئے۔ حمیرا اصغر سے پہلی ملاقات لاہور میں ان کے سٹوڈیو میں ہی ہوئی۔ چند گھنٹوں کی وہ ملاقات ایسی دوستی میں بدلی کہ وہ کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد آتیں تو دھمکی آمیز میسج پہلے پہنچ جاتا کہ اگر کوہسار میں کافی پر نہیں ملنے آئے تو خیر نہیں۔
کوشش ضرور ہوتی لیکن صحافتی مصروفیت کے باعث چند بار ہی حمیرا سے کیا گیا وعدہ ایفا کر پایا۔ فون اور وٹس ایپ پر رابطہ ریگولر رہتا۔ ملاقات اس کی جم اور ڈائٹ کے معمول سے شروع ہو کر موجودہ منصوبوں اور مستقبل کی منصوبہ بندی پر ختم ہوتی۔ فون اور پیغامات بھی زیادہ تر اسی کے آتے۔
2020 اور 2021 میں اس کی آواز دھیمی پڑنا شروع ہوئی اور یہ شکایت ملاقات یا فون پر ریگولر ہونے لگی ’کہ یار عادل کوالٹی کام کیوں نہیں مل رہا؟‘ میں کبھی کبھار ازراہ مذاق کہہ دیتا کہ ’درجنوں ٹی وی چینلز ہیں، اینکر بن جاؤ، کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ ہو جاؤ گی۔‘ لیکن اسے اپنی فٹنس اور شوبز کیرئیر سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔
جب بھی وہ فون پر اپنے اگلے منصوبے کی بات کرتی تو جذبے اور جنون سے بھری آواز میں ایسا بولتی جیسے اب فون سے نکل کر سامنے کھڑی ہو جائے گی۔
پھر دو تین مہینے غائب رہتی تو اندازہ ہو جاتا کہ پروجیکٹ نہیں ملا کیونکہ وہ نہ سن کر چند مہینے خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیتی۔ اکتوبر 2022 سے حمیرا کی جانب سے فون کالز اور میسیجز کی فریکوینسی میں اچانک اضافہ ہوا۔ پانچ اکتوبر 2022 کو فون پر گفتگو میں وہ کافی مایوس سنائی دی۔
میں نے کہا، ’شوبز انڈسٹری میں یہ چلتا رہتا ہے۔ جلد کوئی اچھا پراجیکٹ مل جائے گا۔ زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔‘ لیکن فون بند ہونے کے بعد مجھے لگا کہ وہ اس دفعہ واقعی پریشان ہے۔
ایک ہفتے بعد 13 اکتوبر کو حمیرا کی دوبارہ کال آئی جس میں اس نے پہلی بار باقاعدہ مدد مانگی کہ اگر ڈان ٹی وی پر یا کسی اور چینل پر انٹرٹیمنٹ پروگرامز میں اسے جگہ مل جائے تو اس کی مشکلات (جس کا اس نے کبھی کھل کر اظہار نہیں کیا) کم ہو جائیں گی۔
اس نے کال کے بعد اپنی پوری بائیو بھجوائی اور پھر دوبارہ کال کی کہ ’یار عادل دیکھ لو میرا پورٹ فولیو میں ماڈل ہوں اداکارہ ہوں، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے فیشن ویکس میں حصہ لے چکی ہوں۔‘ اس کے بائیو کی آخری لائن یہ تھی کہ میں نے ماڈل اور ایکٹریس بن کر اپنے بچپن کےخواب کو پورا کر دکھایا ہے۔
یہ ایک جملہ حمیرا اصغر کی زندگی اور پرسنیلیٹی کا نچوڑ ہے۔
بہرحال اس کے بعد میں ایک مہینہ لندن چلا گیا لیکن حمیرا کا پورٹ فولیو کئی دوستوں سے شیئر کر کے ان سے رابطہ میں رہا۔ اس وقت شاید حالات ایسے تھے کہ میں کچھ زیادہ نہیں کر سکا لیکن اس کے ساتھ تعلق اور دوستی ایسی تھی کہ شرمندگی کے باعث اسے کال یا میسیج کر کے یہ نہیں بتا پا رہا تھا کہ ابھی تک کوئی اچھی خبر نہیں ملی۔
اس کے بعد اس نے دو دفعہ کال کی پھر میسیج بھیجا۔ میں نے صرف اتنا بتانے پر اکتفا کیا کہ میں لندن میں ہوں۔
11 نومبر 2022 کو ایک بار پھر حمیرا کا میسیج آیا کہ اگر میں چینلز میں اپنے دوستوں سے دوبارہ بات کروں۔ پھر اگلے دن میسیج آیا کہ میں اسلام آباد آ رہی ہوں۔ میں نے فون کر کے پتہ کیا کہ کب اور کتنے وقت کے لیے تاکہ میں مل کر اسے تسلی دینے کے ساتھ ساتھ اسے اس کا ایمبیشن اور مقصد یاد دلاؤں کہ وہ شوبز انڈسٹری کا بڑا نام بنیں گے جس کے لیے اس نے نہ صرف محنت کی بلکہ بڑی قربانیاں بھی دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہرحال ہماری ملاقات نہ ہو سکی کیونکہ اس کا ٹرپ منسوخ ہو گیا۔ یہ وہ ٹائم تھا جب مجھے لگا کہ حمیرا اب ڈیپریشن کی طرف جا رہی ہے۔ اس کے دو مہینے بعد تک میں نے دو تین دفعہ کالز کیں لیکن جواب نہیں ملا۔ شاید اس نے دوستوں کو آہستہ آہستہ اگنور کرنا شروع کر دیا تھا یا جو بھی وجہ تھی۔
لیکن ہمارا آخری رابطہ 13 نومبر 2022 کو ہوا۔ حمیرا اصغر کی موت جن حالات میں ہوئی اس پر تبصرہ کرنا شاید میرے لیے ممکن نہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر اس کی ذات کے بارے بیہودہ اور بے بنیاد الزامات اور تبصرے دیکھ کر افسوس بھی ہوا اور تکلیف بھی۔ اس لیے کچھ حقائق سامنا لانا ضروری سمجھاتا ہوں۔
حمیرا اصغر چوہدری مضبوط کردار کی آزاد منش خاتون تھیں، جو کسی پر بوجھ نہیں بلکہ اپنے کیریئر میں کچھ بن کر نام پیدا کرنا چاہتی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد لغو تبصروں سے یہ اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی خواتین کو ہمارے معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
شاید ہی کوئی ایسی مثال ہو کہ اگر کوئی مرد خاندان سے الگ رہ کر اپنے کیریئر میں محنت کر رہا ہو، فیملی پر انحصار نہ کرنا چاہتا ہو اور معاشرہ اسے بدکردار مرد کا نام دے۔
حمیرا اصغر کا خاندان ان کے فیصلے کے خلاف تھی۔ ان کا گھرانہ مذہبی ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ اس کی فیملی نے یا اس نے خود کو خاندان سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ جب بھی اس سے بات ہوتی وہ اپنی امی کا تذکرہ ضرور کرتیں اور ان سے باقاعدہ ملنے لاہور جاتیں۔
حمیرا کی فیملی کے بارے میں زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ انہوں نہ صرف بیٹی کھوئی ہے بلکہ میڈیا نے ان کی کردار کشی اور اوٹ پٹانگ سوالات کی بوچھاڑ کر کے ان کے ساتھ جو کیا وہ انتہائی نامناسب تھا۔
دوسری بات یہ کہ چاہے کوئی عورت ہو یا مرد اسے اپنی زندگی اپنی مرضی اور اپنے فیصلوں کے مطابق گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن ببانگ دہل اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ہمارے معاشرے کا دہرا معیار ہے کہ ایک مرد تو اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے لیکن خاتون نہیں۔
میری دوست حمیرا شوبز انڈسٹری کا ایک بڑا نام بننا چاہتی تھیں وہ اپنے خواب کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی۔ شاید وہ اس پورے عرصے میں مالی مشکلات سے گزری ہو، شدید ڈیپریشن کا بھی شکار رہی ہو لیکن اس نے کسی دوست کے سامنے یہ ظاہر ہونے دیا نہ ہاتھ پھیلایا بلکہ سب سے الگ تھلگ رہنا چاہا۔
میں نے ہمارے تمام مشترکہ دوستوں سے بات کی جو زیادہ نہیں۔ وہ کسی کے ساتھ ان ٹچ نہیں تھیں۔ سب نے میری طرح دو تین دفعہ کال کا جواب نہ آنے پر دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔ لیکن اب سب کہہ رہے ہیں کہ کاش ہم اسے خود ہی ٹریس کر لیتے۔
جب ایک اچھا دوست چلا جائے توافسوس ہوتا ہے لیکن وہ حمیرا کس حالت اور کن حالات میں دم توڑا اس کا دکھ اور تکلیف ہم تمام دوستوں کو رہے گی۔
ایک اور سبق بھی ہم سب کے لیے ہے کہ اگر کوئی فون سننا بند کر دے اور وہ بھی مہینوں تک تو بحیثیت دوست اور رشتہ دار کم از کم اس کی ذہنی اور باقی حالات لازمی معلوم کرنے چاہیے۔ ڈیپریشن میں جا کر خود کو سب سے الگ تھلگ کر لینا انسان کو آخرکار ہمیشہ کے لیے رخصت ہی کر دیتا ہے۔
گڈ بائے اینڈ ریسٹ ان پاور ڈیئر حمیرا، یو ول بی مسڈ!
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔