اَن دیکھا محاذ، چومُکھی لڑائی!

ایک ہی وقت میں بلوچستان میں پنجابی مسافروں اور باجوڑ میں ایک عوامی رہنما کا قتل کسی منظم منصوبہ بندی کا حصہ نظر آتا ہے۔

حکام کے مطابق بلوچستان میں قتل کیے گئے مسافروں کی لاشیں 11 جولائی 2025 کو پنجاب منتقل کر دی گئیں جنہیں ڈیرہ غازی خان میں ڈپٹی کمشنر نے وصول کیا (صحافی محمد شہزاد)

سامنے نظر آنے والے خوف کی آنکھوں میں آنکھیں تو ڈالی جاسکتی ہیں مگر جو نظر نہ آئے اُس دشمن پر وار خود کو ہی زخمی کر دیتا ہے۔

ایک اَن دیکھی چوُمکھی لڑائی ہے جو دست بدست ہے، گریبان کسی کا ہے اور شہ کسی اور کی، دستار کسی کی ہے اور سر کسی اور کا، ہتھیار کسی کا ہے اور چلانے والے کوئی اور۔۔ اب یقین ہو چلا ہے کہ ملک میں لڑی جانے والی لڑائی کے کردار مقامی مگر ماسٹر مائنڈ کہیں اور ہیں۔

لڑائی کے تمام انداز بدلے گئے ہیں۔ ایک بار پھر سرد جنگ سے نکل کر دُنیا روایتی جنگوں کے دور میں آ  کھڑی ہوئی ہے تو دوسری جانب ’پراکیسز‘ کے ذریعے لڑائی کے ہتھیار بھی آزمائے جا رہے ہیں۔

انڈیا نے حال ہی میں پاکستان پر حملہ کیا تاہم نظر آنے والے دُشمن کو دو بدو لڑائی میں شکست ہوئی تاہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بدامنی اور پراکسیز کی جنگ جاری ہے۔

بلوچستان میں چند اور لوگوں کا خون بہا ہے۔ وہ مزدور تھے سپاہی تھے، پنجابی تھے، شناخت دکھا کر مارے گئے۔ رنگ، نسل یا مذہب کی بُنیاد پر قتل کیے گئے گئے مگر وہ سب انسان تھے بالکل ویسے ہی عام انسان جن کا عالمی سیاست سے تعلق تھا نہ کسی سے دشمنی۔

وہ کسی کی نفرت کی بھینٹ چڑھے یا کسی کے احتجاج میں مارے گئے، کسی کے مطالبے کی نذر ہوئے یا کسی کی شرائط پر وارے گئے۔۔۔ بس وہ مارے گئے۔

اس سے قبل خیبر پختونخوا میں اے این پی رہنما مولانا خان زیب کی شہادت کی خبر آئی۔ پورا باجوڑ امن کی خاطر اور قتل پر احتجاج میں سڑکوں پر نکل آیا۔

سوشل میڈیا پر مولانا خان زیب سے متعلق خبریں پڑھیں تو صرف ایک ہی سوال اُبھرا کہ آخر امن کے خواہش مند ہی کیوں تیر بہ ہدف ہیں۔

ایک ہی وقت میں بلوچستان میں پنجابی مسافروں اور باجوڑ میں ایک عوامی رہنما کا قتل کسی منظم منصوبہ بندی کا حصہ نظر آتا ہے، تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ صرف دو روز قبل کورکمانڈرز کانفرنس میں ’پراکسیز‘ کے خلاف خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کے عہد کا اعادہ کیا گیا اور پہلی بار دو ملکوں کی جنگ میں تیسرے فریق کی شمولیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا یہ تیسرا فریق اسرائیل ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ جنگ اب دو فریقین تک محدود نہیں رہی۔

انڈیا کے میڈیا کے مطابق بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کو بلوچستان لبریشن آرمی نے ’آپریشن بام‘ کا نام دیا ہے۔ اس آپریشن کے تحت گذشتہ چند دنوں میں کئی حملے کئے گئے جن کے مخصوص اہداف ہیں۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کا قتل بلوچستان کو نفسیاتی طور پر باقی ملک سے الگ کرنے کا ایک ایسا حربہ ہے جو غیر محسوس علیحدگی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ ان حملوں میں تیزی پریشان کُن ہے اور تانے بانے انڈیا سے ملتے ہیں جس کا اظہار حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے دوران کئی ملکوں کی حمایت کےساتھ دیکھنے کو ملا۔

انڈین میڈیا پر ممبئی حملوں کے بعد اجیت دوول کی جانب سے دس سال قبل بلوچستان کی علیحدگی کی دھمکی کو بار بار نشر کیا جاتا ہے اور بلوچستان میں کارروائیوں کے بعد اُس بیان کو بطور ’فاتحانہ تقریر‘ دکھایا جاتا ہے۔

پراکسی وار میں انڈیا کے کردار کو کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا مگر ان عناصر کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ چند عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔

اندرونی محاذ پر تقسیم کی سیاست کا فروغ بھی اسی ایجنڈے کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ میڈیا کی ترجیحات بھی دہشت گردی جیسے معاملات پر گفتگو نہیں جبکہ موضوعات محدود اور مخصوص ہیں۔

ماضی کی ناکام پالیسیوں نے پاکستان کو اندرونی لڑائی میں جھونکا ہے تاہم اب بھی اس ’بھوت‘ کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے لئے عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا جس کے لیے جامع منصوبہ بندی کہیں نظر نہیں آتی۔

گلی محلے میں لڑی جانے والی اس جنگ میں  نیشنل ایکشن پلان جبکہ بلوچستان میں آغاز حقوق بلوچستان جیسے منصوبوں پر عمل اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنا اہم ہو گا۔

بلوچستان میں ایک بڑا طبقہ جبری گمشدگیوں سے متاثر ہے اُن کے  پیاروں کا پتہ مل جائے تو کسی حد تک زخموں کی پیوند کاری ہو پائے گی۔ جو دہشت گرد سرگرمیوں کا حصہ ہیں اُنہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ اُن کے لواحقین کو قرار تو آئے۔ عوام کا دل جیتنے کے لئے وہ سب اقدامات کرنا ہوں گے جن سے دل کی خلش دور ہو۔

آئین پسند سیاسی رہنماؤں سردار اختر مینگل، نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ اور دیگر بلوچ رہنماؤں سے بات کرنا ہو گی۔ نوجوان بلوچ قیادت کو مذاکرات کا حصہ اور اُن کے ساتھ مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا۔

اس عمل کی ابتدا کب ہو گی، اس کے لیے ریاست کو ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ یہ مشکل عمل ضرور ہے مگر نامکمن ہر گز نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر