پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالخلافہ پشاور میں 16 دسمبر 2014 کو جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے 134 بچوں سمیت لگ بھگ 140 سے زائد افراد کو قتل کیا تو ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف ایک قومی لائحہ عمل تیار کر کے بھرپور کارروائی کا آغاز کیا۔
اب لگ بھگ 11 سال بعد 21 مئی 2025 کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں عسکریت پسندوں نے ایک خودکش حملے میں اے پی ایس سکول کو نشانہ بنایا جس میں 40 طلبہ سوار تھے۔ اس حملے میں اب تک 10 طلبہ کے علاوہ بس کے ڈرائیور سیمت دو فوجی اہلکاروں کی جان چکی ہے جب کہ متعدد بچے اب بھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
صحافیوں کے ایک گروپ کو گذشتہ اختتام ہفتہ خضدار میں سکول بس پر حملے سے متعلق سرکاری بریفنگ دی گئی اور کوئٹہ کے سی ایم ایچ ہسپتال تک رسائی بھی دی گئی جہاں طلبہ زیر علاج ہیں۔
بس حملے کے بعد وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے علاوہ فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف سخت بیانات سامنے آئے اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت متحد ہے اور ان کے بقول بلوچستان میں ’دہشت کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے‘ اور اب صوبے میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم میڈیا کو اس لیے لائے ہیں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ یہ جو انڈین مداخلت بلوچستان کے اندر ہے اور جس طریقے سے وہ دہشت گردوں کی پشت پنائی کر رہے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، کیونکہ پاکستان نے انڈیا پر فوجی غلبہ حاصل کیا۔‘
وہ ہمساہہ ملک انڈیا کے ساتھ پہلگام کے حملے کے بعد کی صورت حال کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا: ’انڈیا کو شکست ہوئی، بہت بری شکست ہوئی اور اس کے بعد اب وہ اپنی پراکسسی کے ذریعے سافٹ ٹارگٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان پوری طرح متحد ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف کا پختہ عزم ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہے۔‘
سکول بس حملے میں استعمال ہونے والے بارودی مواد کی مقدار
کوئٹہ کے دورے کے دوران عسکری حکام کی طرف سے صوبے کے حالات اور خضدار میں سکول بس پر حملے سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ خودکش بم حملے میں 100 سے 120 کلو گرام تک بارودی مواد استعمال کیا گیا جو کہ ایک گاڑی میں نصب تھا۔ فوجی حکام کی طرف سے بتایا گیا کہ واضح طور پر حملہ آور کا ہدف سکول بس ہی تھی۔
انڈیا کے حملے کے دوران بلوچستان میں ایک دن میں 33 حملے
بریفنگ میں بتایا گیا کہ انڈیا نے 9 اور 10 مئی کو جب انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس دوران کچھ ہی گھنٹوں میں صوبے کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں نے 33 چھوٹے بڑے حملے کیے جس سے انڈیا کہ صوبے میں ایسے حملوں کی پشست پناہی واضح ہوتی ہے۔
صحافیوں کو بتایا کہ رواں سال صوبے میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر عسکریت پسندوں کے خلاف اوسطاً 253 چھوٹے بڑے آپریشن ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بریفنگ میں اس تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ حالیہ برسوں میں گرفتار عسکریت پسندوں میں سے 70 فیصد کو عدالتوں سے رہائی مل گئی اور جنگجوؤں کے خلاف انصاف کے عمل کو سخت بنانے کے لیے نئی قانون سازی کرنے کی تجویز بھی دی گئی جس پر وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ حکومت اس کے لیے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے۔
اب تک کسی عسکریت پسند تنظیم نے خضدار حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو فائرنگ سے کم از کم 26 سیاحوں کی اموات کے بعد انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد 6 مئی کو انڈیا نے پاکستان پر میزائلوں سے حملہ کیا اور پھر جوہری ہتھیار رکھنے والے جنوبی ایشیا کے دونوں ملکوں کے درمیان 10 مئی تک لڑائی جاری رہی ہے جس میں لڑاکا جہازوں، ڈرونز اور میزائل سمیت جدید و بھاری ہتھیار استعمال ہوئے۔
امریکہ سمیت کئی ممالک کی کوششوں سے بالآخر 10 مئی کو دونوں ملک جنگ بندی پر متفق ہو گئے جس پر تاحال عمل درآمد جاری ہے۔ لیکن دونوں ممالک نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف سفارتی سطح پر اقدامات اٹھا رہے ہیں بلکہ سخت بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
خضدار میں بس پر حملے کے بعد پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ اس کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے تاہم انڈیا اسے مسترد کرتا ہے۔
انڈیا کی تردید
21 مئی 2025 کو انڈیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’انڈیا خضدار کے واقعے میں انڈیا کے ملوث ہونے کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ انڈیا ایسے تمام واقعات میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی یہ روش بن گئی ہے کہ اپنے اندرونی معاملات کا انڈیا پر لگاتا ہے۔
پاکستانی ردعمل
عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان کہتا رہا ہے کہ بلوچستان میں ’دہشت گردی‘ کے پیچھے انڈیا ہے ’لیکن اس مرتبہ ان (انڈیا) کو ایک باقاعدہ بیان جاری کرنا پڑا کہ ہم اس کے پیچھے نہیں ہیں۔ دیکھیے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک جھوٹ پر مبنی بیانیہ تھا بھارت کا، اور وہ اس کا دفاع نہیں کر سکے۔‘
عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم نے یہ پیش کش کی تھی کہ انڈیا پہلگام حملے کی تفتیش بین الاقوامی کمیشن سے کروائے لیکن وہ آمادہ نہیں ہوا۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا موقف خاصا مضبوط ہے۔‘
بلوچستان میں بڑا آپریشن؟
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’یہاں (بلوچستان) میں پہلے سے ایک صورت حال ہے اور ہماری فورسز ان سے نمٹ رہی ہیں۔ (دہشت گردی) کے خلاف ایک نیشنل ایکشن پلان ہے اور تمام ادارے آن بورڈ ہیں۔
وفاقی حکومت بھی، صوبائی حکومت بھی، آرمی بھی۔ پہلے سے چیزیں چل رہی ہیں اور ان چیزوں میں بڑی تیزی آئے گی اور یہاں پر بالکل ان سے ایک آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا لیکن اس واقعے نے کیا اب سب کچھ قریب کر دیا ہے؟ دیکھیے ہمارا عزم بڑھا ہے، ہمارا حوصلہ بڑھا ہے کہ ہم نے اس کو بالکل ختم کرنا ہے۔
پاکستانی سفارتی کوششیں
پاکستان نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک وفد تشکیل دے رکھا ہے جو امریکہ اور اہم یورپی ممالک جا کر انڈیا اور پاکستان کی حالیہ کشیدگی سے متعلق اسلام آباد کا موقف پیش کرے گا۔
اس بارے میں وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے پاکستان کی ساکھ مزید بحال ہو گی، انڈیا کو تکلیف ملے گی اور پاکستان کو اپر ہینڈ (جو غلبہ) ملا ہے وہ مزید مضبوط ہو گا۔‘
عطا تارڑ نے کہا کہ ’دشمن جو ہے اس کے بالکل ہوش ٹھکانے آ جائیں گے، انشا اللہ، کیونکہ ہم نے ابھی فیصلہ کر لیا ہے کہ فتنہ ہند کو یہاں سے مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ فلیڈ مارشل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف کا بڑا پختہ عزم ہے۔ ’فتنہ ہند کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے اور ہم اب بالکل ان کو مہلت نہیں دیں گے کہ یہ ہمارا نقصان اور کریں۔‘