پی ٹی آئی تحریک کامیاب ہونے کے امکانات کتنے؟

موجودہ سیاسی منظرنامے میں تحریک انصاف کی تحریک کامیاب ہونے کے امکانات کیا ہیں، اس حوالے سے جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کاروں سے رائے لی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامی 11 مئی 2025 کو کراچی میں ایک مارچ کے دوران انڈیا مخالف مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں (آصف حسن/ اے ایف پی)

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اتوار کو اعلان کیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی 90 روزہ ’آر یا پار‘ سیاسی تحریک کا آغاز گذشتہ (ہفتے) شب سے ہو چکا ہے، جس کا مقصد عوام کے آئینی حقوق کا حصول ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عمران خان خود اس تحریک کی قیادت کریں گے اور وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا انہیں اس موجودہ ماحول میں سیاست کرنی بھی ہے یا کوئی اور راستہ اپنانا پڑے گا کیونکہ ہمیں تو سیاست کرنے ہی نہیں دی جا رہی۔

کیا پی ٹی آئی کی یہ تحریک کامیاب ہو سکتی ہے اور کیا اب ان کے لیے مذاکرات کا کوئی دروازہ کھل سکتا ہے یا ان کی یہ تحریک بھی ماضی کی تحریکوں کی طرح کسی پوائنٹ پر آ کر ختم ہو جائے گی؟

یہی جاننے کے لیے ہم نے مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے لی جن کے خیال میں موجودہ ملکی سیاسی منظرنامے کو سامنے رکھیں تو تحریک انصاف کے لیے یہ تحریک چلانا پہلے سے بہت مشکل کام ہو گا۔

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی پر احتجاجی کیفیت طاری نہیں ہوئی، احتجاج کے لیے احتجاجی کیفیت طاری کرنا ضروری ہوتا ہے اور لوگوں کے اندر اس حوالے سے تحریک کا پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کی اس وقت سب سے بڑی کمزوری پنجاب ہے اور اب پنجاب کو متحرک کرنے کے لیے انہیں خیبر پختونخوا کی ضرورت پڑی ہے اور وہاں کے وزیر اعلیٰ کو انہوں نے یہاں بلایا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہفتے کی رات کو لاہور میں ہونے والے اجلاس میں بھی صرف اراکین اسمبلی کو بلایا گیا اور انہیں ذمہ داری دی جا رہی ہے کہ وہ احتجاجی تحریک کے لیے متحرک اور فعال ہوں گے، اور اراکین اسمبلی پر بھی یہ تلوار لٹک رہی ہے کہ اگر وہ اس احتجاج میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے تو پھر انہیں آئندہ ٹکٹ نہیں مل پائے گی۔

سلمان غنی کا مزید کہنا تھا: ’ابھی تک تحریک انصاف نے اپنا ایجنڈا واضح نہیں کیا کہ وہ کس بنیاد پر تحریک چلا رہے ہیں؟ کیا صرف بانی پی ٹی آئی کی رہائی ان کے پیش نظر ہے یا لوگوں کے مسائل بھی ہیں؟ اس حوالے سے خود پارٹی بھی گومگو کا شکار ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’فیصلہ سازوں سے ڈائیلاگ کا آپشن میرا نہیں خیال کہ کارگر رہا ہے۔ پارٹی جس نہج پر پہنچی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خود عمران خان ڈائیلاگ کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں اور جن سے وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں وہ ان سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سب سے تلخ بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتیں احتجاج بھی کرتی تھیں، احتجاجی تحریکیں بھی چلاتی تھیں، لیکن ان کے پیچھے نو مئی جیسا کوئی واقعہ نہیں تھا، اور نو مئی کے اثرات سے آج تک تحریک انصاف نکل نہیں پائی۔

’جب تک نو مئی کے حوالے سے عمران خان کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کریں گے، تب تک میں نہیں سمجھتا کہ ان کی پارٹی، اراکین اور کارکن متحرک ہو پائیں گے۔‘

تجزیہ کار رضا رومی کا خیال ہے: ’اس تحریک کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی اسیری کو دو سال ہو گئے ہیں۔

’یہ چاہتے ہیں کہ یہ تحریک چلے اور پریشر بڑھے لیکن لاہور میں علی امین گنڈاپور نے جو اعلان کیا ہے وہ تو 90 دن کا ہے، گویا کہ فیصلہ سازوں کو تین مہینے کا اور وقت مل گیا ہے کہ وہ عمران خان کو بند ہی رکھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تحریک چلانے کے لیے دو چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پہلا تو یہ کہ پارٹی ایک متحد طریقے سے فنکشن کرے اور اس میں حکمت عملی پر اتحاد ہو، لیکن اس وقت پارٹی کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔

’خیبر پختونخوا کے دھڑے کی علی امین گنڈاپور قیادت کر رہے ہیں، وہ ہر صورت میں اپنی وزارتِ اعلیٰ کو قربان نہیں کرنا چاہتے، جبکہ مخصوص نشستوں کے بعد ان کی وزارتِ اعلیٰ پر بھی پریشر آ رہا ہے اور وہاں کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے۔ دوسری جانب جو نظریاتی طرز کے رہنما ہیں جیسے جنید اکبر، وہ بڑے بلند و بانگ دعوے بھی کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس تحریک کا آغاز پنجاب سے اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ جب تک پنجاب اس تحریک میں متحرک نہیں ہوتا، اس وقت تک یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اب پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی گراؤنڈ کے اوپر تنظیم کمزور بھی ہے اور اس میں تقسیم بھی بہت ہے۔

’جب تک یہ اپنا گھر ٹھیک نہیں کریں گے، اس وقت تک انہیں کامیابی نہیں ہو سکتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ لوگوں کو متحرک کرنا ممکن ہوگا؟ ’کیا عوام سڑکوں پر اس حبس کے موسم میں نکلنے کے لیے تیار ہیں؟ پھر اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کی مرکزی حکومت کی طرف سے سختی بھی کی گئی ہے، تو کیا عوام اس کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرے گا۔ جو شواہد ہیں، ان کے مطابق لگتا ہے کہ عوام ابھی تیار نہیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ نو مئی کے واقعے نے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کو آمنے سامنے کھڑا کر رکھا ہے۔ ’ظاہری بات ہے کہ اصل مسئلہ ہی وہی ہے، جس میں سیکڑوں کیسز چل رہے ہیں، اور جب یہ اپنے کارکنوں کو متحرک کریں گے تو گرفتاریاں دوبارہ عمل میں آ سکتی ہیں۔ لیکن اب پی ٹی آئی نو مئی کو دہرائے گی نہیں۔ ایک سبق جو پی ٹی آئی نے سیکھ لیا ہے، وہ یہی ہے کہ انہوں نے وہ غلطی نہیں دہرانی، کیونکہ اس کا خمیازہ وہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔‘

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب حکومت کا موقف

ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری نے اتوار کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے 90 روزہ احتجاجی تحریک کی بات دراصل اپنی نوکری پکی کرنے کی کوشش ہے۔‘

انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے لاہور جلسے پر براہ راست اعتراض نہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر جلسے میں بندوقیں اور کلاشنکوفیں لائی گئیں تو قانون حرکت میں آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کی ترقی، خوشحالی اور سکون کو آگ نہ لگائی جائے۔‘

ترجمان پنجاب حکومت نے کہا، ’جمہوری لوگ ہمیشہ سیاسی حکومت سے بات کرتے ہیں۔ جلد یا بدیر پی ٹی آئی کو بھی سیاسی اور جمہوری لوگوں سے بات کرنا ہو گی۔‘

اکثر مبصرین کے خیال میں اگر پی ٹی آئی اس تحریک میں بجلی کے بلز اور مہنگائی جیسے معاملات پر دوسری جماعتوں جیسے جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام (ف) کو تحریک میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ تحریک نتائج حاصل کیے بغیر بھی ایک اچھا شو ثابت ہو سکتی ہے۔

تجزیہ کار منیب فاروق کے مطابق موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کے اندر بہت کھینچا تانی ہے۔

’پارٹی کی قیادت آپس میں لڑ رہی ہے اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی نہ تبدیل ہونے والی ہے، حکومت کے ساتھ کوئی سیاسی گفتگو نہیں، حزب اختلاف کا کوئی اتحاد موجود نہیں ہے، ایسی صورت حال میں کوئی تحریک کس طرح سے کامیاب ہو سکتی ہے؟‘

منیب کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں جتنی بھی تحاریک رہیں ہیں جب تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کا آشیرباد نہ ہو تب تک حکومتیں ختم نہیں ہوتیں۔ 

’اب اس تحریک کا ہدف اگر عمران خان کی رہائی ہے تو اس کے لیے بھی کوئی اس طرح سے لائحۂ عمل نہیں ہے۔ عدالتوں سے تحریک انصاف کو انصاف نہیں مل رہا لیکن اس کے علاوہ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے مقتدرا سے مزاکرات کے دور دور تک امکانات نہیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کا جیل سے باہر آنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے جیل سے تو کسی نہ کسی دن رہا ہو ہی جائیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو کلی طور پر مسائل ہیں پاکستان تحریک انصاف کے کیا وہ حل ہو پائیں گے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان