خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ محفوظ

خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سماعت کے دوران تمام فریقین کے وکلا نے پہلی سماعت پر ہی دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ایک سکیورٹی اہلکار 21 ستمبر 2023 کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرکزی دفتر کے باہر موجود ہے (اے ایف پی/ عامر قریشی)

خیبر پختونخوا (کے پی) میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تمام فریق سیاسی جماعتوں کے وکلا نے پیر کو پہلی سماعت پر ہی دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ 

کے پی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر تقسیم کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پیر کے روز سماعت کی۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارلیمنٹیرین کے وکلا پیش ہوئے۔ 

سماعت کے آغاز میں جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت میں کہا کہ ’یہ حکم نامہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ بھی آ چکا ہے، میرے اس کیس پر کچھ اعتراضات ہیں، کیا یہ مقدمہ صرف کے پی کی حد تک سنا جائے گا۔‘

کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے امیدوار کی شمولیت سے قبل مخصوص نشست الاٹ ہو گئی ہو تو کیا وہ ریورس ہو جائے گی؟ جو مخصوص نشستوں والی ایکسرسائز ہو چکی وہ ریورس نہیں ہو سکتی، ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد امیر مقام سے معاملہ طے ہو گیا تھا۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ’جو بھی باہر طے ہوا ہے اس کے لیے یہ فورم نہیں ہے۔‘

ممبران کمیشن نے مسکراتے ہوئے مکالمہ کیا ’آپ ان کو باہر جا کر پکڑ لیں۔‘ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’مخصوص نشستیں الاٹ ہونے کے بعد اب تبدیل نہیں کر سکتے۔‘

پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جنرل نشستوں کے بعد ہی مخصوص نشستیں ملتی ہیں، جتنی جنرل نشستیں ہوں گی اتنی ہی مخصوص نشستیں ملنی چاہییں۔ سب سے اہم مسئلہ کٹ آف تاریخ کا ہے۔

’قانون میں ایسی کوئی تاریخ نہیں کہ اس تاریخ تک مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرنا لازم ہے۔ اگر ضمنی انتخابات کو بھی دیکھنے کا کہا جائے تو مخصوص نشستوں والا معاملہ مزید گھمبیر ہو جائے گا۔‘

ممبر سندھ اسمبلی نثار درانی نے استفسار کیا کہ ’اگر ضمنی انتخابات میں کسی جماعت کی نشستیں کم ہوجائیں تو کیا مخصوص نشستیں کم ہوسکتی ہیں؟‘

پی ٹی آئی پی کے وکیل نے کہا: ’نہیں، مخصوص نشستیں واپس نہیں لی جا سکتیں۔

’ہمارے تحفظات ہیں کہ ہمارے دو نمائندوں کو ایک شمار کیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشنز کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو ہماری دو مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔‘

ن لیگ کے وکیل شمائل بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جے یو آئی اور ن لیگ کی سات سات نشستیں ہیں۔

جے یو آئی کو دس اور ن لیگ کو سات مخصوص نشستیں کیسے دی جا سکتی ہیں، پہلے جے یو آئی کو دی گئی سیٹ پر ٹاس ہونا تھا جو ٹاس کیے بغیر جے یو آئی کو دی گئی۔ نو نو نشستیں دونوں جماعتوں کو ملنی چاہیے تھیں۔ الیکشن کمیشن اس مخصوص نشست پر آئین و قانون کے تحت ٹاس کا حکم جاری کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ن لیگ کے کامیاب اُمیدواروں کے کامیابی کے نوٹیفکیشن مرحلہ وار جاری کیے گئے۔ ہر کامیاب امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے، کامیاب امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد تین دن تک کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے وقت ہوتا ہے۔ پھر پارٹی پوزیشن بنتی ہے جس کے بعد سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں۔‘

عوامی نیشنل پارٹی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ضمنی انتخاب میں ہم ایک سیٹ جیتے ہیں۔ ہمارا یہ موقف ہے کہ جب انتخابات ہوئے اس کے بعد کی صورت حال کے مطابق سیٹیں دی جانی چاہییں۔ چار مارچ کے امیدواروں کا نوٹیفکیشن 20 امیدواروں سے متعلق ہے۔‘

چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے ’مخصوص نشستوں سے متعلق دو فیز میں نوٹیفکیشنز ہوئے۔ پہلے تو سنی اتحاد کونسل والا معاملہ حل نہیں ہوا تھا۔‘

پیپلزپارٹی کے وکیل نیئر بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ن لیگ اور جے یو آئی ف کا موقف تھا کہ سات سات سیٹیں برابر ہیں، لیکن ہمارا معاملہ مختلف ہے، کے پی اسمبلی میں ہماری چار نشستیں ہیں۔ پہلے ان دونوں جماعتوں کا معاملہ حل ہو جائے تو ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘

الیکشن کمیشن میں ہونے والی سماعت کا سیاق و سباق

گذشتہ ماہ 27 جون کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پانچ کے مقابلے میں سات کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کی تھیں۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ جس کے بعد دو جولائی کو الیکشن کمیشن نے اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے مطابق معطل شدہ 77 میں سے 74 ارکان کو بحال کر دیا گیا تھا۔

جن میں 19 قومی اسمبلی، 27 پنجاب اسمبلی، 25 خیبر پختونخوا اسمبلی اور تین سندھ اسمبلی کے ارکان شامل تھے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق عدالتی فیصلے کی روشنی میں خیبرپختونخوا اسمبلی کی 25 نشستیں بحال کی گئیں جن میں جے یو آئی کو 10، ن لیگ کو سات اور پیپلزپارٹی کو چھ نشستیں ملی ہیں، پی ٹی آئی پی اور اے این پی کے حصے میں ایک ایک نشست آئی۔

جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے الیکشن کمیشن کا اعلامیہ پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا کہ کے پی کے میں جے یو آئی اور ن لیگ کی نشتیں برابر ہیں تو مخصوص نشستیں جے یو آئی کو زیادہ کیوں ملیں۔

آٹھ جولائی کو پشاور ہائی کورٹ نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق الیکشن کمیشن کا اعلامیہ کالعدم قرار دے دیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن اقلیت اور خواتین سے متعلق دوبارہ سیٹوں کی ایلوکیشن کریں، الیکشن کمیشن 10 دن کے اندر تمام امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو سنے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست