سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے، ووٹ جبکہ بنیادی حق نہیں ہے، فیصلے میں تین دن کو بڑھا کر 15 دن کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے جیسا تھا۔‘
جمعرات کو آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 11 رکنی بنچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کیس کی سماعت کی۔
مقدمے کی کارروائی عدالتی حکم کی روشنی میں سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔
حکمران اتحاد کے وکیل مخدوم علی خان نے گذشتہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے جبکہ الیکشن کمیشن اور پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اپنی گزارشات تحریری طور پر جمع کرا دیں۔
جمعرات کی سماعت میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کچھ فریقوں نے اضافی گزارشات جمع کرا دی ہیں، مجھے ان کی نقول آج ملی ہیں اب ان کو دیکھوں گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ن لیگ کے وکیل سے سوال کیا کہ ’ایک جماعت کے امیدواروں کو آزاد کیسے قرار دیا گیا، کیا آپ نے اپنی تحریری گزارشات میں اس کا جواب دیا؟‘
ن لیگ کے وکیل حارث عظمت نے عدالت کو بتایا ’میں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔‘
فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کچھ درخواستوں میں سپریم کورٹ رولز کو مدنظر نہیں رکھا گیا، ان درخواستوں کو مسترد کیا جائے، مجھ سے پوچھا گیا تھا سنی اتحاد کا انتخابی نشان کیا ہے، سنی اتحاد کا نشان گھوڑا ہے مگر حامد رضا آزاد لڑے، حامد رضا آزاد کیوں لڑے اس کا جواب دوں گا۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر کہا کہ ’میرا سوال تھا مجھے اس کا تسلی بخش جواب نہیں ملا، صاحبزادہ حامد رضا کی 2013 سے سیاسی جماعت موجود ہے، جو جماعت الیکشن لڑے وہی پارلیمانی پارٹی بناتی ہے، وہ اپنی جماعت سے نہیں لڑے پھرپارلیمانی جماعت کیوں بنائی۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’39 امیدواروں کی حد تک میں اور قاضی فائز عیسیٰ بھی آٹھ ججز سے متفق تھے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کہا پی ٹی آئی نشستوں کی حقدار ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر اس موقع پر کہا کہ ’اقلیتی ججز نے ان ہی گراونڈ پر پی ٹی آئی کو مانا جس پر اکثریتی ججز نے مانا تھا۔‘
فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اب نظر ثانی درخواستوں میں ان اقلیتی فیصلوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔
’دوسری جانب درخواستوں میں کہا گیا پی ٹی آئی کو ریلیف مل ہی نہیں سکتا تھا، نظرثانی ان فیصلوں پر انحصار کر کے کیسے لائی جا سکتی ہے؟ ان فیصلوں میں تو پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا گیا ہے۔‘
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت عید کے بعد 16 جون تک ملتوی کر دی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو آئندہ سماعت پر دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی بینچ کا فیصلہ کیا تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔
سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں مزید کہا کہ ’انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔‘
سپریم کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا۔ جن آٹھ ججز نے سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دیا ان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی شامل کیا ہے۔
ججوں کے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کیا کہا گیا؟
سپریم کورٹ کے دو ججوں نے اقلیتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتی کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔
’جبکہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔‘
دونوں ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا ہے کہ ’کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائی کورٹ میں فریق تھی جبکہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک بھی پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔‘
مسلم لیگ ن نے کی فیصلے کے خلاف اپیل
مسلم لیگ ن اور حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست میں سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنےکی استدعا کی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست میں ایسی کوئی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پشاور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے جو درخواست تھی اس میں صرف یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہے کہ نہیں۔ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی دو الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کے حکمنامے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دونوں جماعتوں کو ایک ہی تصور کر لیا، سپریم کورٹ نے کافی نکات کو سنا لیکن مختصر فیصلے میں کئی اہم نکات پر خاموشی ہے۔‘
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ درخواست کو جلد از جلد سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔
مخصوص نشستوں کا معاملہ
قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں۔ جن میں سے آٹھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔
آٹھ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہے۔
کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہوئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ معطل کرنے کے بعد تعداد دوبارہ 208 ہو گئی ہے۔
جس کے باعث حکومت تو قائم رہے گی لیکن حکومت اب دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی ہے جو کسی بھی بل کی منظوری میں اہم ہے۔