600 سال پہلے معدوم ہونے والا 12 فٹ لمبا پرندہ زندہ کرنے کی کوشش

پراجیکٹ کی فنڈنگ کرنے والے ’لارڈ آف دا رنگز‘ فلم کے خالق پیٹر جیکسن کہتے ہیں کہ دیوہیکل پرندے کو زندہ کرنا ان کا خواب ہے۔

موا نامی یہ پرندہ چھ سو سال پہلے انسان کی طرف سے حد سے زیادہ شکار کرنے کی وجہ سے معدومی کا شکار ہو گیا (Colossal Biosciences)

امریکی ریاست ٹیکسس میں قائم کمپنی جسے ’لارڈ آف دی رنگز‘ نامی فلم بنانے والے سر پیٹر جیکسن کی معاونت حاصل ہے، معدوم ہو جانے والے ایک دیوقامت پرندے کو دوبارہ زندگی دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

 بائیوٹیکنالوجی کمپنی کولوسل بائیوسائنسز نے اعلان کیا ہے کہ وہ جینیاتی انجینیئرنگ کے ذریعے زندہ پرندوں کو ناپید ساؤتھ آئی لینڈ دیوقامت موا پرندے کی شکل دینے کی کوشش کرے گی جس کی اونچائی کبھی 12 فٹ (3.6 میٹر) ہوتی تھی۔ اس منصوبے کے لیے سر پیٹر کی طرف سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر (1.1 کروڑ پاؤنڈ) کی رقم فراہم کی گئی۔ اس تعاون میں نیوزی لینڈ کا نگائی تاہو ریسرچ سینٹر بھی شامل ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انہوں نے کسی معدوم نسل کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہو۔ کولوسل کے سائنس دانوں پہلے بھی کامیابی کے ساتھ سرمئی رنگ کے بھیڑیے تیار کیے جو معدوم ہو جانے والے بھیڑیوں سے جینیاتی مشابہت رکھتے ہیں۔

لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ وہ کسی پرندے کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور چوں کہ پرندے کے بچے انڈے کے اندر پروان چڑھتے ہیں اس لیے اس میں ممالیہ جانور تیار کرنے کے مقابلے میں مختلف چیلنجز درپیش ہیں۔

کولوسل کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف ہے کہ پانچ سے 10 سال کے اندر اس نسل کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ کولوسل کی چیف سائنٹسٹ بیتھ شیپیرو کے مطابق منصوبے کا پہلا مرحلہ یہ ہو گا کہ ایسی اچھی حالت میں محفوظ ہڈیاں تلاش کی جائیں جن سے ڈی این اے نکالا جا سکے۔

کولوسل نے کہا کہ اس ڈی این اے کا موازنہ زندہ پرندوں کی انواع، جیسے کہ زمین پر رہنے والے ٹینامو اور ایمو کے جینز سے کیا جائے گا ’تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ موا کو دیگر پرندوں سے منفرد بنانے والی کیا چیز تھی؟‘

کمپنی کے مطابق، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ پرندوں کو پھر انڈوں سے نکالا جائے گا اور بند قدرتی ماحول میں چھوڑا جائے گا جہاں پھل پھول سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سر پیٹر نے کہا کہ ’امید ہے کہ چند سال میں ہم موا کو دوبارہ دیکھ سکیں گے۔ اس سے مجھے وہ خوشی اور اطمینان ملتا ہے جو کسی فلم سے کبھی نہیں ملا۔‘ انہوں نے بذات خود موا کی 300 سے 400 کی ہڈیاں جمع کیں۔

’فلمیں میرا روزمرہ کا کام ہیں جب کہ موا میری تفریح ہے۔ نیوزی لینڈ میں سکول کا ہر بچہ موا کے بارے میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘

لیکن یہ خیال تنازعات سے خالی نہیں۔ دوسرے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ معدوم انواع کو جدید ماحول میں واپس لانا شاید ناممکن ہے حالاں کہ زندہ جانوروں کے جینز میں تبدیلی کرکے ان کے مشابہہ جسمانی خصوصیات پیدا کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔

اس بارے میں ان کے ملے جلے احساسات ہیں کہ آیا یہ اقدام فائدہ مند ہو گا یا نہیں؟ بعض سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ معدوم ہو جانے والے جانداروں پر توجہ دینے سے ان نسلوں کی حفاظت نظرانداز ہو سکتی ہے جو ابھی موجود ہیں۔

 موا 4000 سال سے نیوزی لینڈ میں پایا جاتا رہا، لیکن 600 سال پہلے زیادہ شکار کی وجہ سے اس کی نسل ختم ہو گئی۔ 19 صدی میں موا کا بڑا ڈھانچہ برطانیہ لایا گیا، جو اب یارکشائر میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اسی ڈھانچے کی بدولت اس لمبی گردن والے پرندے میں بین الاقوامی دلچسپی پیدا ہوئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس