صوبائی محکمہ داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ ’اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس کو ایس او پی بنا دیں کہ ہر سزا یافتہ مجرم کا ڈی این اے لے کر اس کا ایک ڈیٹا بیس بنا دیں تاکہ مستقبل میں کوئی جرم ہوتا ہے تو اس کو آسانی سے ٹریس کیا جاسکے۔‘
ڈی این اے
ایس ایچ او کا روزنامچہ
پنجاب پولیس کے تفتیشی افسر کی کہانی جنہوں نے پاکستان میں ڈی این اے کی مدد سے پہلی بار کوئی مقدمہ حل کیا۔