امریکی ریاست آئیڈاہو میں 84 سالہ ولما موبلی کو میں ان کے گھر میں بے دردی سے قتل کیے جانے کے تقریباً تین دہائیوں بعد، جدید ڈی این اے ٹیکنالوجی کی بدولت ان کے قاتل کی شناخت ہو گئی ہے۔
جیروم پولیس ڈپارٹمنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ موبلی 10 اگست 1995 کو جیروم کے علاقے میں واقع اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھیں۔ ان کا گلا دبایا گیا اور کلہاڑی جیسے آلے سے ان پر حملہ کیا گیا۔
اُس وقت تفتیش کاروں کے ریڈار پر تین مشتبہ افراد موجود تھے جن میں ڈینی لی کینی سن نامی ایک پڑوسی بھی شامل تھے۔
کینی سن کی حرکتوں نے ابتدائی طور پر تفتیش کاروں کی توجہ ان کی طرف مبذول کروائی۔
اس کیس کو حل کرنے پر کام کرنے والے سرجنٹ کلنٹن ویگنر نے کے ایم وی ٹی کو بتایا کہ ’اس کے بعد انہوں (کینی سین) نے جو کچھ بھی کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ثبوت مٹا رہے ہیں۔ وہ دوسری جگہ منتقل ہو گئے۔ بال کٹوا لیے اور داڑھی منڈوا لی۔‘
کینی سن کی گرفتاری کے لیے حلف نامہ بھی جمع کروایا لیکن استغاثہ کا ماننا ہے کہ ان پر الزام عائد کرنے کے لیے ثبوت کافی نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق سراغ رساں ڈان چیٹرٹن کا کہنا تھا کہ ’سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ تھی کہ ہمارے پاس فنگر پرنٹس، کسی مشتبہ شخص کے خون کا نمونہ یا اس طرح کی کوئی چیز نہیں تھی جس سے کیس واضح ہو جاتا۔‘
آخر کار معاملہ ٹھنڈا ہو گیا اور اگرچہ کئی سال سے اس جرم کا سراغ لگانے کے لیے کچھ کوششیں کی گئیں لیکن کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ حتیٰ کہ جون 2022 میں معاملہ سارجنٹ ویگنر کو سونپ دیا گیا۔
سارجنٹ ویگنر نے آئیڈاہو سٹیٹ پولیس فرانزک لیب سے رابطہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیا 20 سال قبل جائے واردات سے جمع کی گئی کسی بھی چیز کو ڈی این اے ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے پیش نظر ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔
لیبارٹری نے ٹیسٹ کیے اور پیر کو نتائج دے دیے۔
موبلی کے زیر جاموں میں کینی سن سے مماثلت رکھنے والے ’ڈی این اے کی بڑی مقدار‘ پائی گئی جس نے انہیں اس کے قتل سے جوڑ دیا۔
اگرچہ کینی سن موبلی کے پڑوسی تھے لیکن ان کے درمیان کوئی معلوم تعلق نہیں تھا اور نہ ہی قتل کا محرک واضح ہو سکا۔
کینی سن نے مارچ 2001 میں آئیڈاہو کے علاقے فائلر میں اپنے گھر میں خودکشی کر لی تھی۔
سارجنٹ ویگنر نے ڈی این اے نتائج آنے کے ایک دن بعد موبلی کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ انہوں نے قاتل کی شناخت کر لی ہے اور اب کیس بند کر دیا گیا ہے۔
© The Independent