جب ہم نے پاکستان میں پہلی بار ڈی این اے کی مدد سے قاتل پکڑا

پنجاب پولیس کے تفتیشی افسر کی کہانی جنہوں نے پاکستان میں ڈی این اے کی مدد سے پہلی بار کوئی مقدمہ حل کیا۔

ہر انسان کا ڈی این اے دوسروں سے مختلف ہوتا ہے اور اس کی مدد سے مجرم کا سراغ لگایا جا سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ 2003 کی بات ہے۔ میں چند سپاہیوں کے ہمراہ ملتان کے علاقے گلگشت کی ایک کالونی کے ایک مکان کے سامنے کھڑا تھا۔   

مکان کا ڈیزائن جدید قسم کا تھا اور اس کا رقبہ ایک کنال کے لگ بھگ ہو گا۔ اسے دیکھ کر کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس سبزے سے ڈھکے علاقے کے اس خوبصورت گھر کے اندر کیسی لرزہ خیز واردات ہوئی ہے۔

 لوگوں تک بھی اس وقوعے کی اطلاع پہنچ چکی تھی اور مکان کے سفید گیٹ کے باہر ایک جمِ غفیر اکٹھا ہو چکا تھا جس کے حجم میں ہر لمحے اضافہ ہو رہا تھا اور لوگ گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ واردات کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔  

یہ بات تفتیش کے لیے زہر کا درجہ رکھتی تھی اس لیے میں نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ لوگوں کو جائے وقوعہ سے دور رکھیں تاکہ کوئی اہم واقعاتی شہادت ضائع نہ ہو سکے اور خود سب انسپیکٹر سمیت مکان کے اندر داخل ہو گیا۔

اندر ہم نے دیکھا کہ ایک عورت اور اس کی نوعمر بیٹی کو کسی تیز دھار آلے کے وار سے گلہ کاٹ کر قتل کر دیا گیا ہے۔

گھر کا سربراہ ساجد غم سے نڈھال گھر کے چھوٹے سے صحن میں بیٹھا ہوا سسکیاں لے رہا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ اظہار تعزیت کیا اور اسے حوصلہ دیتے ہوئے اسے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔

ساجد نے روتے روتے وقوعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اور اس کا چھوٹا بھائی عابد اپنی فیملی کے ساتھ اسی گھر میں مقیم ہیں۔ ’میری شادی کو دس سال جبکہ عابد کی شادی کو ابھی دس ماہ ہوئے ہیں۔ میری ایک بیٹی نو سالہ ارم اور ایک بیٹا دو سالہ معید ہے۔‘

 اس نے کہا کہ ’ہماری گھنٹہ گھر کے قریب اندرون مارکیٹ کپڑے رنگ کرنے کی قدیمی دکان ہے۔ ہم دونوں بھائی صبح نو بجے روزانہ گھر سے دکان پر جاتے ہیں اور رات نو بجے واپس گھر آتے ہیں۔ دوپہر کو ہم میں سے ایک بھائی گھر کھانا کھانے آ جاتا اور دوسرے کا کھانا ساتھ لے کر دکان پر واپس چلا جاتا۔

’آج بھی حسب معمول میں دو بجے دوکان سے گھر کے لیے نکلا۔ گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی تو کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے گھر کے دروازے پر لگے انٹر کام کے ذریعے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن جواب موصول نہ ہوا۔

مجھے اندر گھر کے صحن میں اپنے دو سالہ بیٹے معید کے رونے کی آواز وقفے وقفے سے سنائی دے رہی تھی۔ میں نے محلے کے ایک بچے کو دیوار کے ذریعے اندر اتارا اور اندر سے مین گیٹ کھلوایا۔

’گھر میں داخل ہوا تو میرا دو سالہ بیٹا پیمپر پہنے، ہاتھ میں فیڈر لیے صحن میں کھڑا رو رہا تھا۔ میں نے بیٹے کو گود میں اٹھایا اور بے چینی سے اندر داخل ہوا اور اپنی بیوی کو آوازیں دینے لگا۔ مگر کہیں سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

’میری بیوی جانتی تھی کہ اس وقت میں لنچ کے لیے گھر آتا ہوں تو وہ اکثر اس وقت کچن میں ہوتی ہے، چنانچہ میں اسے پکارتے ہوئے کچن کی طرف بھاگا۔ جیسے ہی کچن کا دروازہ کھولا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ میری بیوی زرینہ کی خون میں لت پت لاش کچن میں پڑی ہوئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں کچن سے نکل کر اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا تو وہاں میری نو سالہ بیٹی ارم کی لاش پڑی تھی۔ صرف میرا دو سالہ بیٹا معید بچ گیا ہے۔ میری دنیا اجڑ چکی ہے۔ میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔ میرے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔‘

میں نے ساجد کو گلے سے لگایا اور اس سے وعدہ کیا کہ انشاء اللہ قاتلوں کی گرفتاری تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔

میں نے فون پر ڈی پی او صاحب کو ساری تفصیلات سے آگاہ کیا اور دوبارہ جائے واردات کا معائنہ کرنے لگا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی چھوٹا سا صحن ہے جس کے بعد گھر کے اندرونی حصے میں جانے کے لیے لکڑی اور شیشے کا دروازہ ہے۔ دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم ہے۔ ڈرائنگ روم کے اندر سیلنگ فین چل رہا تھا اور میز پر روح افزا شربت کے دو گلاس اور ایک دوپٹہ پڑا تھا۔

ہم نے گلاسوں اور شیشے کے میز سے ہاتھوں کے پرنٹس اٹھائے۔ پھر ملحقہ کچن میں مقتولہ کی لاش کا ملاحظہ شروع کیا تاکہ وہاں سے ہمیں واقعاتی شہادتیں میسر آ سکیں۔

مقتولہ کے گلے میں ایک طرف رسی کا نیلگوں نشان تھا اور ساتھ گلا بھی تیز دھار آلے سے کاٹا گیا تھا۔ لاش کے گرد ہمیں کوئی چھری یا آلہ قتل نہ مل سکا۔

جائے وقوعہ بتا رہی تھی کہ قاتل ضرور مقتولہ کے جاننے والے تھے جنہیں اس نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور ان کے لیے روح افزا شربت بنا کے لائی۔ دو گلاسوں کی موجودگی بھی دو افراد کی نشاندہی کر رہی تھی۔

گھر کے مالک نے بتایا کہ اس کی بیوی بہت نیک اور سمجھدار تھی۔ ’وہ گھر کا دروازہ کھولنے سے پہلے انٹرکام پر آنے والے ہر شخص کی تسلی کرتی اور پھر دروازے کے اندر لگے ہوئے آئینے سے تصدیق کرتی اور پھر دروازہ کھولتی تھی۔‘

ان تفصیلات نے میرے گمان کو یقین میں بدل دیا کہ قاتل مقتولہ کے جاننے والے تھے۔

ساجد سے جب اس کے بھائی ماجد کی بیوی کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ گذشتہ دو ہفتے سے اپنے میکے فیصل آباد گئی ہوئی ہے۔ قتل کے وقت گھر میں صرف اس کی بیوی، بیٹی ارم اور دو سالہ معید موجود تھے۔

بیڈروم میں جہاں ساجد کی نو سالہ بیٹی کا گلا کاٹ کر قتل کیا گیا۔ وہاں بھی ہمیں تلاش بسیار کے باوجود آلۂ قتل نہ مل سکا۔

میں نے کیس کی تفصیلات اکٹھی کر کے اپنے حکامِ بالا کو بھجوا دیں۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا، لیکن ایک پرسکون رہائشی علاقے میں دہرے قتل کی بھیانک واردات نے پورے علاقے کی توجہ اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچ لی تھی۔ ہر جگہ اسی بارے میں بات ہو رہی تھی اور اخبار بھی اسے اہمیت دے رہے تھے۔

واقعے کی نوعیت کے پیشِ نظر افسران بھی اس میں گہری دلچسپی لے رہے تھے اور چونکہ واردات میرے علاقے میں ہوئی تھی، اس لیے میرے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکی تھی۔

پوسٹ مارٹم سے پہلے تک تو یہ دہرے قتل کا کیس تھا، لیکن پوسٹ مارٹم سے انکشاف ہوا کہ مقتولہ سات ماہ کی حاملہ تھی لہٰذا یہ کیس تہرے قتل کیس میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کیس میں ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے ضلع بھر کے نامور پولیس افسران پر مشتمل کئی ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں۔

اس دوران مقتولہ دیورانی (ماجد کی بیوی) واپس آ گئی۔ اسے اور ساجد کے رشتہ داروں کو شامل تفتیش کیا گیا، مگر دو ہفتے گزرنے اور 70 کے قریب لوگوں سے پوچھ گچھ کے باوجود کیس کی کوئی گتھی سلجھ نہیں پا رہی تھی، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مجھ پر دباؤ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔

مجھے امید تھی کہ شاید شربت کے گلاسوں سے انگلیوں کے نشان مل جائیں، لیکن وہاں صرف مقتولہ کی انگلیوں کا نشان ملا، کیوں کہ بظاہر قاتل یا قاتلوں نے گلاسوں کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔

اس کے علاوہ بھی تفتیش کے جتنے روایتی طریقے ہو سکتے تھے، میں نے سب آزما لیے، لیکن سبھی ایک ایک کر کے ناکام ہو گئے۔ آخر میں نے اپنے ایڈیشنل ایس پی مقصود الحسن صاحب (جو ان دنوں ڈی آئی جی کے عہدے پر فائز ہیں) کو اعتماد میں لے کر مقتولہ کے ناخنوں کا ڈی این اے کا نمونہ (جو میں پوسٹ مارٹم کے وقت بنوا چکا تھا) کے ذریعے کیس کا معمہ حل کرنے کی منظوری لی۔

ڈی این اے کے ذریعے کیس حل کرنے کا احوال مختصراً بتا دوں کہ ملتان کے گلگشت تھانے میں بطور ایس ایچ او تعیناتی سے قبل میں نے لاہور کی فورینزک لیب سے ڈی این اے انویسٹی گیشن کا کورس کر لیا تھا۔

وہ کورس بھی تقریباً حادثاتی طور پر ہوا کہ اس وقت میں وہاڑی میں تعینات تھا اور حکام میرا تبادلہ کرنا چاہتے تھے، لیکن چونکہ میرے بچے وہیں سکول میں زیرِ تعلیم تھے، اور میں نہیں چاہتا تھا کہ ان کی تعلیم متاثر ہو، اس لیے جب مجھے پتہ چلا کہ لاہور میں انسٹی ٹیوٹ آف مائیکرو بیالوجی میں ڈی این اے انوسٹی گیشن کے تربیتی کورس کے لیے انسپکٹروں کے نام درکار ہیں تو میں نے فوراً عرضی ڈال دی جو منظور بھی ہو گئی۔

میری خوش قسمتی کہ اس ڈی این اے انویسٹی گیشن کورس کے سربراہ پاکستانی نژاد امریکی تھے جو امریکہ میں فورینزک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رہ چکے تھے۔ انہوں نے امریکہ میں ڈی این اے کے ذریعے بہت سے پیچیدہ کیسوں کا کھوج لگایا تھا جن میں مائیک ٹائیسن اور مونیکا لیونسکی کا کیس بھی شامل تھا۔

میں نے بہت ذوق و شوق کے ساتھ ڈی این اے انویسٹی گیشن کے رموز سیکھنے کی کوشش کی اور اس دوران انسٹی ٹیوٹ آف مائیکروبیالوجی کے کئی قابل اساتذہ کے ساتھ میرا اچھا تعلق بھی بن گیا۔

اب وہی تربیت میرے کام آ رہی تھی۔ ڈی این اے کا نمونہ بھجوانے سے قبل انسٹی ٹیوٹ آف مائیکرو بیالوجی پنجاب یونیورسٹی میں اپنے استاد اور فورینزک کے پروفیسر سے رابطہ کر کے میں نے انہیں کیس کی تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیا۔

ڈی این اے انویسٹی گیشن کے بارے میں تھوڑا سا بتا دوں کہ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ ڈی این اے جلد کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے، تھوک میں، خون کے ایک ذرے یا بالوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے اگر کسی شخص کے جسم کا کوئی معمولی سا حصہ بھی مل جائے تو اس کی مدد سے اسے شناخت کیا جا سکتا ہے۔

ہم نے تربیت کے دوران پڑھا تھا جب کسی شخص پر تیز دھار آلے سے حملہ کیا جاتا ہے تو متاثرہ شخص ضرور مزاحمت کرتا ہے اور قاتل کے ہاتھ پکڑنے یا اس کے جسم کو دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دوران اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مقتول کے ناخنوں کے اندر قاتل کی جلد کا کوئی حصہ یا بال رہ جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے مقتولہ کے پوسٹ مارٹم کے ساتھ ہی اس کے ناخنوں کے اندر سے مواد کے نمونے لے کر محفوظ کر لیے تھے۔

نمونے کے ساتھ ساتھ ہمیں دس ایسے اشخاص کے خون کے نمونے بھی فراہم کرنا تھے جنہیں دوسرے ڈی این اے کی موجودگی کی صورت میں میچ کیا جاتا۔

ہم نے اپنی تفتیش کی بنیاد پر دس ایسے قریبی اشخاص کی فہرست مرتب کر لی تھی جو اس گھر میں ممکنہ طور پر آ جا سکتے تھے یا مقتولہ زرینہ سے جن کی شناسائی تھی۔ 

اگلے روز علی الصبح ہم ایک وین میں ڈی این اے سیمپل اور مشتبہ دس اشخاص کے ہمراہ لاہور روانہ ہو گئے۔ ان اشخاص میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ انہیں کس مقصد کے لیے لاہور لے جایا جا رہا ہے۔

پانچ گھنٹے کی طویل مسافت کے بعد ہم پنجاب یونیورسٹی لاہور پہنچ گئے۔ اور ان افراد کے ڈی این کے نمونے لے کر کاغذی کارروائی مکمل کی گئی اور ہم واپس ملتان آ گئے۔

ڈی این اے لیب کے پروفیسر نے مجھے رپورٹ کے لیے سات سے دس دن کا وقت دیا گیا۔ اس دوران ہم نے معمول کی تفتیش، اہل علاقہ سے پوچھ گچھ جاری رکھی۔ اسی دوران ایک ایسا سرا ہاتھ آیا جس سے کیس کی گتھی سلجھنے کی امید پیدا ہو گئی۔

ساجد کے گھر میں کام کرنے والی ایک سابقہ ملازمہ نے ہمیں بتایا کہ مقتولہ (ساجد کی اہلیہ) اور عابد کی بیوی کے درمیان اکثر جھگڑا رہتا تھا۔ ساجد ایک خوش شکل اور پر کشش شخصیت کا مالک تھا جبکہ عابد انتہائی سیدھا سادہ لڑکا تھا۔

عابد کی بیوی عابد سے زیادہ ساجد میں دلچسپی لے رہی تھی اور مقتولہ زرینہ کی اس بات پر اپنی دیورانی سے لڑائی بھی ہو چکی تھی، جس کے بعد وہ ناراض ہو کر اپنے میکے فیصل آباد چلی گئی تھی۔

مقدمے کی تفتیش کے حوالے سے یہ پہلو انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس سے قبل مقتولہ یا مدعی مقدمہ ساجد کی کسی کے ساتھ کوئی رنجش کا سراغ نہیں ملا تھا۔

ابھی ہمیں لاہور میں ڈی این اے سیمپل جمع کروائے پانچ دن ہوئے تھے کہ مجھے ڈی این اے لیب کے انچارج اور میرے استاد کا فون آیا۔ انہوں نے مجھے مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ سیمپل میں تین ڈی این اے سامنے آئے جن میں ایک مقتولہ کا جبکہ دوسرا ڈی این اے، دس مشتبہ اشخاص میں سے ایک محمد شہزاد کا ہے۔ شہزاد مقتولہ زرینہ کی دیورانی اور عابد کی بیوی کا سگا بھائی تھا۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ ایک دو دن میں ڈی پی او دفتر ارسال کر دی جائے گی لیکن تمہیں اس لیے پہلے بتایا تاکہ تم ملزمان تک رسائی حاصل کر سکو۔

میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ میں نے بارگاہِ ایزدی میں سجدۂ شکر ادا کیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ آج تک پنجاب تو ایک طرف، پورے پاکستان میں کوئی کیس ڈی این اے کی بنیاد پر حل نہیں ہوا تھا اس لیے اس بارے میں اعلیٰ افسران میں بھی آگاہی کم تھی۔ ڈی این اے رپورٹ کے علاوہ کسی اور ٹھوس ثبوت کی تلاش اب بھی اہم تھی۔  

میں نے ساجد کو بذریعہ فون بلایا اور اسے کہا کہ وہ عابد، اس کی بیوی اور اس کے بھائیوں کو فوری طور پر لائیں، انہیں مقدمہ کے سلسلے میں سی پی او صاحب ملتان ملنا چاہتے ہیں۔ شاید وہ مقدمہ کی تفتیش تبدیل کرنا چاہتے ہیں

ساجد نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ کل صبح ان اشخاص کو میرے پاس لے آئے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ میں نے وہ رات انتہائی تذبذب اور اضطراب میں گزاری۔ اگلے روز صبح 11 بجے ساجد، تمام مطلوبہ افراد کو میرے پاس تھانے لے آیا۔

میں نے سب کو باری باری اپنے کمرے میں بلایا اور کاغذ پر ان کے کوائف لکھ کر ان کے انگوٹھے لگوا کر انہیں دوسرے کمرے میں بھیج دیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد شہزاد میرے سامنے تھا۔ میں نے اس کے کوائف لکھے اور اسے اپنے ساتھ باہر لا کر سرکاری گاڑی میں بٹھا لیا اور شالیمار کالونی کی طرف چل پڑا۔

میں نے شہزاد سے کہا کہ ’مجھے تم سے تفتیش درکار نہیں کیونکہ تمہارے خلاف سارے ثبوت میرے پاس آ چکے ہیں۔ مجھے اگر تم سب سچ سچ بتا دو تو میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی یا تشدد نہیں کروں گا۔‘

پہلے اس نے آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی لیکن جب میرا دباؤ برقرار رہا تو اس نے بالآخر زبان کھول ہی دی۔

شہزاد نے بتایا کہ ’میری بہن وقوعہ سے دس روز قبل ناراض ہو کر فیصل آباد آ گئی تھی۔ وہ ہماری اکلوتی بہن ہے اور ہم تین بھائی ہیں۔ ہماری بہن نے روتے ہوئے بتایا کہ ’ساجد کی بیوی نے میرے کردار پر بیہودہ الزامات لگائے ہیں۔ اب اس کے ہوتے ہوئے میں کبھی اپنے گھر نہیں جاؤں گی۔‘ یہ سب سن کر میرا خون کھولنے لگا میں نے زرینہ سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔

’میں نے ساتھ والے گاؤں سے ایک پیشہ ور قاتل اشتہاری بشیر عرف بشیرا کی خدمات لیں اور اسے ایک لاکھ روپے کے عوض واردات کے لیے آمادہ کر لیا۔

’وقوعے کے روز میں اور بشیرا 12 بجے دن ساجد کے گھر پہنچے۔ مجھے معلوم تھا کہ اس وقت دونوں بھائی دکان پر ہوں گے۔ میں نے دروازے پر دستک دی، بیل بجائی تو انٹرکام سے زرینہ نے دریافت کیا کہ ’کون ہے؟‘

’میں نے بتایا کہ میں شہزاد ہوں۔ ابھی فیصل آباد سے آ رہا ہوں۔

’تھوڑی دیر بعد زرینہ نے دروازہ کھول دیا۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیں میرے ساتھ ایک دوست ہے۔ زرینہ نے کھانے کا پوچھا تو میں نے انہیں کہا کہ صرف پانی پییں گے، کیوں کہ ہمیں ایک ولیمے میں شرکت کے لیے جانا ہے۔

’میرے پاس خنجر تھا جبکہ بشیرے کے پاس رسی تھی۔ زرینہ شربت بنانے کے لیے کچن میں گئی تو ہم نے پلاننگ کر لی۔ جیسے ہی زرینہ نے شربت کی ٹرے میز پر رکھی تو بشیرے نے اس کے گلے میں رسی ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ بھاگ کر کچن میں چلی گئی۔ اس دوران اس کا دوپٹہ وہیں گر گیا۔ ہم کوئی موقع ضائع کیے بغیر کچن میں گھس گئے اور اس کے گلے میں رسی ڈال کر کھینچا۔ اسی اثنا میں میں نے خنجر سے دو تین وار اس کے پیٹ پر کیے جس سے وہ گر گئی پھر میں نے جنجر اس کے گلے پر پھیر دیا۔

’اچانک ہم نے دہکھا کہ بیڈروم کی کھڑکی سے اس کی بیٹی ارم نے یہ سب دیکھ لیا ہے، چنانچہ ہمیں اسے بھی ختم کرنا پڑا۔‘

میں نے شہزاد سے آلہ قتل کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ ’وہ ہم نے ایک پرانی بنیان میں لپیٹ کر ساجد کے گھر کی پچھلی طرف زمین میں دبا دیا تھا۔‘

کسی بھی کیس کے حل میں آلۂ قتل کی برآمدگی انتہائی اہم ہوتی ہے کیوں کہ آلۂ قتل ایک فزیکل یا طبعی ثبوت ہوتا ہے، اس لیے باقی شواہد موجود ہوں مگر آلۂ قتل نہ ہو تو کیس آدھا رہ جاتا ہے۔

اس لیے میں کوئی وقت ضائع کیے بغیر اسے ساجد کے مکان کی پچھلی طرف لے گیا اس نے آگے آگے چلتے ہوئے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں خنجر چھپایا گیا تھا۔ وہاں تھوڑی سی مٹی ہٹائی گئی تو خون آلود بنیان میں لپٹا ہوا خنجر برآمد ہو گیا۔

ہم نے بذریعہ فرد آلۂ قتل قبضے میں لیا۔ اب تمام ثبوت ہمارے سامنے تھے، تہرے قتل کا معمہ اللہ کے فضل و کرم سے حل ہو چکا تھا۔

میں ملزم شہزاد کو اور آلۂ قتل کو لے کر سی پی او آفس آگیا۔ سی پی او صاحب کو ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے شہزاد سے پوچھ گچھ کی اور تفتیش پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مجھے شاباش دی اور انعامات سے نوازا۔

اگلے روز ڈی این اے رپورٹ بھی موصول ہو گئی اور یوں اس کیس کا معمہ حل ہو گیا۔ صرف ایک کمی تھی کہ دوسرا ملزم بشیرا ابھی تک غائب تھا۔ وہ پیشہ ور قاتل تھا اور کئی تھانوں کو مطلوب تھا چنانچہ اسے اشتہاری قرار دیتے ہوئے ہم نے ملزم شہزاد کو 302 میں چالان کر دیا۔

مجھے اللہ نے یہ اعزاز دیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے پاکستان میں پہلا کیس میرے ہاتھوں حل ہوا۔

نوٹ: یہ تفتیش سو فیصد حقائق پر مبنی ہے، البتہ بعض جگہوں پر مصلحتاً فرضی نام شامل کیے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی