’مجرم کے کپڑوں کے ٹکڑے سے بھی ڈی این اے نکال لیں گے‘

سندھ فورنزک لیب کے تکنیکی ڈائریکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ ڈی این اے ٹیسٹنگ لیب کی بدولت پاکستان کا پہلا ڈی این اے کرمنل ڈیٹا بیس بنایا جائے گا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے فورنزک سائنس جرائم کے مقدمات کو حل کرنے کا لازمی جز ہے اور جرائم کی تشخیص کے لیے فورنزکس میں کیمیائی تجزیہ تو اہم کردار ادا کرتا ہی ہے۔(اے ایف پی)

کراچی میں ڈاکٹر پنجوانی سینٹر، جامعہ کراچی کے تحت سندھ میں پہلی جدید فورنزک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبارٹری قائم کی گئی ہے جو آج سے پوری طرح فنکشنل ہوگی۔ یہ سندھ میں اپنی نوعیت کی پہلی اور پاکستان میں دوسری فورنزک لیبارٹری ہے۔ یعنی اب سندھ کےکرمنل کیسز کے لیے فورنزک  ڈی ان اے کی جانچ سندھ میں ہی ہوگی، نتائج کئی ماہ کے بجائے چارہفتوں میں حاصل ہوجائیں گے اور پاکستان کا پہلا کرمنل ڈی این اے ڈیٹا بیس قائم کیا جائے گا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے فورنزک سائنس جرائم کے مقدمات کو حل کرنے کا لازمی جز ہے اور جرائم کی تشخیص کے لیے فورنزکس میں کیمیائی تجزیہ تو اہم کردار ادا کرتا ہی ہے۔

جس طرح کراچی میں سرکاری گیسٹ ہاؤس قصرِناز میں پانچ افراد کی ہلاکت اور زہریلے پاؤڈر ایلمونیم فاسفائڈ کی موجودگی کا معمہ کیمیائی تجزیے سے حل کیا گیا تھا۔ بالکل اس ہی طرح ڈی این اے تجزیہ بھی فورنزکس میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کی مثال ہم نے قصور کی زینب انصاری کے زیادتی اور قتل کیس میں بھی دیکھی تھی جس میں ایک ہزار سے زائد افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کئے گئے تھے۔

سندھ میں ڈی این اے فورنزک لیب کا قیام اس لیے ضروی تھا کیوں کہ  پچھلے کئی سالوں سے فرانزک تفتیش کے لیے پاکستان بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کوپنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) کی سہولیات پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ جہاں محدود وسائل کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر صرف پینجاب سے ہی پچاس سے ساٹھ کیسز آجاتے ہیں اس لیے دیگر صوبوں سے آئے ہوئے نمونوں کی تشخیص میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ تاہم ، سندھ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اب سندھ میں ہی مکمل فورنزک تفتیش کروا سکیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ اس لیب کے قیام سے نہ صرف کراچی کی پولیس کو تفتیش میں مدد لے گی بلکہ اندرون سندھ اور بلوچستان سے آئے ہوئے دہشتگردی، ریپ، قتل، ڈکیتی یا نامعلوم ڈیڈ باڈیز کے کیسز بھی کم وقت میں حل ہو سکیں گے۔

لیبارٹری کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سےبات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پراجیکٹ تین سال کا ہے، حکومت سندھ نے فرانزک لیب کے لیے 260 ملین روپے رکھے تھے ، جن میں سے 220 ملین روپے رواں سال جنوری میں جاری کیے گئے تھے۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ ہونے کے باعث سندھ حکومت کو ابھی اضافی 80 ملین بھی جاری کرنے ہیں۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد سے جب ہم نے پوچھا کہ سندھ میں اس ڈی این اے لیب کا قیام کیوں ضروری تھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ لیب جدید آلات سے لیس ہے، ہم اس لیب میں ایک ماہ میں سو کیسز کی جانچ کرسکتے ہیں، جس کی بدولت جلد سے جلد مستند نتائج حاصل ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال اکتوبر میں سندھ حکومت کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت چار ہفتوں میں ہمیں حتمی نتائج دینے ہوا کریں گے۔

تکنیکی ڈائریکٹر ڈاکٹر نعمان رسول جہوں نے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے قیام میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس لیب میں بین الاقوامی معیار کے جدید آلات موجود ہیں جو پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی سے تعداد میں ذیادہ ہیں اور جدید بھی ہیں۔

سندھ ڈی این اے لیب میں اس وقت تین جنیٹک انالئیزر، چار پی سی آر مشینزاورتین رئیل ٹائم پی سی آر موجود ہیں جن کا ڈی این اے ٹیسٹنگ میں انتہائی اہم کردار ہے۔

سندھ فورنزک لیب کے تکنیکی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ سندھ ڈی این اے ٹیسٹنگ لیب کی بدولت پاکستان کا پہلا ڈی این اے کرمنل ڈیٹا بیس بنایا جائے گا۔ جس کے تحت وہ جرائم پیشہ افراد جو بار بار جرائم کرتے ہیں ان کی نشاندہی اور روک تھام میں یہ کرمنل ڈیٹا بیس کافی مفید ثابت ہوگا۔  اگر ڈکیتی یا ریپ کے معاملے میں جرم کرتے وقت مجرم کے جسم پر موجود کپڑوں کا ایک ٹکڑا بھی حاصل ہوگیا تو اس سے بھی مجرم کی شناخت کر سکتے ہیں ۔

ڈاکٹر نعمان رسول نے ڈی این کے ٹیسٹ کے نتائج کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ کو ثانوی حیثیت حاصل ہے جب کہ مجرم کے بیان کو اس پر ترجیح دی جاتی ہے۔ زینب کے ریپ اور قتل کیس میں بھی مجرم عمران کا ڈی این اے ٹیسٹ ثابت ہونے کے باوجود بھی اسے جرم قبول کرنے کی بنا پر سزا دی گئی تھی۔ دیگر ممالک میں ڈٰی این اے ٹیسٹینگ کے حوالے سے قانون سازی موجود ہے، اس لیے پاکستان میں بھی اب اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیئے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان