اسلام آباد کی اکثر سڑکوں پر آج کل مختف رنگوں میں لپٹے افراد بت بنے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک سنہری رنگ میں لپٹا ہوا نوجوان توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ 28 سالہ طارق حنیف یا گولڈن مین ہے۔
اسے لوگ دیکھ کر خوش ہوتے، ہنستے اور ویڈیوز بناتے ہیں اور چند پیسے بھی دے جاتے ہیں لیکن اس گولڈن چمک کے پیچھے چھپی کہانی کچھ مختلف ہے۔
اندپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے طارق حنیف نے بتایا کہ ’میں نے بہت سی نوکریاں کیں، بہت سی جگہوں پر مزدوری کی لیکن کہیں بھی کسی نے تین مہینے تک مجھے مستقل نہیں رکھا۔ ہر جگہ یہی سننے کو ملا کہ اب آپ کی جگہ کسی اور کو رکھ لیا ہے۔ ایسی ہی مایوسیوں کے بعد میں نے یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھنا شروع کیں اور ایک دن مجھے بیرونِ ملک کے ’گولڈن مین‘ فنکاروں کی ویڈیوز نظر آئیں۔ بس اس دن سے اس کو اس کی مجبوریوں نے دو وقت کی روٹی کمانے کی خاطر یہ راستہ اپنانے پر مجبور کیا۔
’میں نے یہ سوچ کر گولڈن مین بننے کا فیصلہ کیا کہ اگر برطانیہ اور امریکہ میں لوگ گولڈن مین بنتے ہیں اور انہیں اتنی عزت دی جاتی ہے تو میں کیوں نہ پاکستان میں بھی ایسا کروں؟ اور اب چار سال سے میں گولڈن مین بن کر اسلام آباد کی سڑکوں پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہوں۔‘
لوگ خوش ہوتے ہیں، مگر ہمارا حال اللہ جانتا ہے
بقول طارق انہوں نے خود کو گولڈن پینٹ سے رنگنا شروع کیا۔ مخصوص لباس پہنا اور سڑکوں پر کھڑا ہو کر لوگوں کو محظوظ کرنے لگے۔
انہوں نے بتایا ’لوگ خوش ہوتے ہیں، ویڈیوز بناتے ہیں، میری وجہ سے ان کی ویڈیوز لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی میں کھڑا رہتا ہوں۔ کپڑوں کے اندر پسینے میں بھیگا ہوتا ہوں۔ صرف اللہ جانتا ہے کہ اندر سے میرا حال کیا ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق وہ دن کے 12 سے 16 گھنٹے گولڈن مین کے لباس میں گزارتے ہیں، جس سے ان کے جسم پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
طارق کہتے ہیں کہ ’پسینے کی وجہ سے جسم پر دانے نکل آتے ہیں۔ الرجی ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے کافی جلن اور تکلیف ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’چہرے پر چھائیاں اور سیاہ دھبے بھی پڑ جاتے ہیں۔ کئی بار ہسپتال جانا پڑا، ادویات لیں، جلد کے لیے دوائیں بھی استعمال کر رہا ہوں۔‘
یہ محض جلد نہیں اندرونی اعضا کو بھی متاثر کر سکتا ہے
ڈاکٹر دانش حفیظ ملک نے، جو جلد کی بیماریوں کی ماہر ڈرماٹولوجسٹ ہیں، صحت کے اعتبار سے اس پینٹ سپرے کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ جو ایروسول سپرے اپنے جسم پر لگاتے ہیں ان کے پھیپھڑوں، آنکھوں، دل، گردوں اور دیگر اعضا پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ ’جب یہ سپرے ناک کے ذریعے سانس میں جاتا ہے تو وہ اندرونی نظام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں جہاں ایسے فنکار پرفارم کرتے ہیں وہ مخصوص ’فیبرک پینٹس‘ اور ’سکن فرینڈلی‘ میک اپ استعمال کرتے ہیں، جو مہنگے ہوتے ہیں۔
’لیکن پاکستان میں غربت کی وجہ سے اکثر یہاں سستا اور غیرمحفوظ سپرے استعمال کیا جاتا ہے۔
’یہ لوگ غریب ہوتے ہیں۔ ان کے پاس معیاری میٹریل نہیں ہوتا۔ ان سپریز میں زائلین، ٹولین یا ریزنز جیسے کیمیکلز ہوتے ہیں، جو انسانی جلد پر سنگین ردعمل پیدا کر سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر دانش مزید کہتے ہیں کہ ’گرمی میں جب پسینہ نہیں نکل پاتا تو ڈی ہائیڈریشن، فنگل انفیکشن، ایکزیما اور الرجک کونٹیکٹ ڈرماٹائٹس جیسی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات یہ اثرات نہ صرف متاثرہ شخص بلکہ ان کے گھر والوں تک بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔‘
طارق حنیف مانتے ہیں کہ یہ کام محض تفریح نہیں بلکہ ایک مجبوری بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجبوری انسان سے بہت کچھ کرواتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو خوشیاں دیں۔ چاہے اس کے لیے ہمیں کتنا ہی تکلیف دہ عمل سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔‘
لیکن ڈاکٹرز کی تنبہہ اور ان کی اپنی صحت اس بات کی غماز ہے کہ اس تفریح کی قیمت بہت زیادہ ہے۔