’ دعا ہی میری تنخواہ ہے‘: 30 سال سے پانی کی سبیل لگانے والے شہری

گلزار پرانا سکھر تھرمل ہاؤس کے سامنے دریائے سندھ پر سڑک کنارے صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک لوگوں کو پانی پلاتے ہیں۔ اس کام کے لیے ان کی کوئی تنخواہ نہیں اور بقول ان کے ’یہ سب اللہ کے نام پر ہے۔‘

پرانا سکھر تھرمل ہاؤس کے سامنے دریائے سندھ پر پل کے قریب سڑک کنارے ایک سایہ دار سبیل سے روزانہ سینکڑوں افراد کو ٹھنڈا پانی دستیاب ہوتا ہے۔  

یہ سبیل کسی سرکاری ادارے نے نہیں، بلکہ گلزار احمد نامی ایک 60 سالہ مقامی شخص نے قائم کر رکھی ہے، جو گذشتہ 30 سال سے اسے اپنی ذاتی ذمہ داری سمجھ کر چلا رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں گلزار احمد نے بتایا کہ انہوں نے یہ خدمت سب سے پہلے محرم کے ایام میں پانی پلانے سے شروع کی، جو رفتہ رفتہ ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن گئی۔

ان کا کہنا تھا: ’میں نے شروع میں صرف مٹکے رکھے تھے۔ پھر سوچا کہ اس نیکی کے کام کو باقاعدہ انداز میں جاری رکھنا چاہیے، تو سبیل بنائی۔‘

گلزار صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک لوگوں کو پانی پلاتے ہیں۔ اس کام کے لیے ان کی کوئی تنخواہ نہیں اور بقول ان کے ’یہ سب اللہ کے نام پر ہے۔‘

 سبیل کے ارد گرد لگے درختوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’یہ درخت بھی میں نے خود کئی سال پہلے لگائے تھے، تب چھوٹے پودے تھے، اب بڑے درخت بن گئے ہیں۔ انہی کے سائے تلے لوگ گرمی میں پانی پیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سبیل کا یومیہ خرچہ تقریباً دو سے تین ہزار روپے ہے، جو میں اکثر اپنی جیب سے ہی برداشت کرتا ہوں۔ کبھی کوئی راہگیر مدد کر دیتا ہے تو وہ بھی اسی کام میں لگا دیتا ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول گلزار: ’یہاں سے روزانہ سینکڑوں لوگ گزرتے ہیں، کوئی رکشے میں، کوئی موٹر سائیکل پر، کوئی پیدل۔ سب کو پانی دیتا ہوں۔ پردیسی ہوں یا مقامی، سب کی پیاس بجھانا میرا فرض ہے۔‘

 انہوں نے بتایا کہ جب پل پر ٹریفک جام ہوتا ہے تو گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہے اور لوگ گرمی سے بے حال ہو کر ان کی سبیل کا رخ کرتے ہیں۔ ’لوگ دعائیں دیتے ہیں، یہی میری تنخواہ ہے۔ تھکن نہیں ہوتی۔ بس دل خوش ہو جاتا ہے۔‘

ان کے بقول، وہ گرمیوں میں آٹھ مہینے ٹھنڈا پانی پلاتے ہیں اور سردیوں میں مٹکے رکھ دیتے ہیں۔

سبیل سے مستفید ہونے والے 35 سالہ واجد بھٹی کہتے ہیں کہ ’گرمی میں سب کو یہاں سے ٹھنڈا پانی ملتا ہے۔ ان کا کام خاموش خدمت ہے۔‘

ایک راہ گیر امین شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب سب کچھ مہنگا اور مشکل ہو چکا ہے، یہ شخص بغیر کسی لالچ کے پانی پلاتا ہے، یہ خود ایک مثال ہیں۔‘

گلزار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ چلنے میں دشواری کے باوجود روزانہ سبیل پر موجود ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بعد ان کی اولاد اس کام کو جاری رکھے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی