لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کی وبا، متاثرہ ماؤں نے بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ دیا

حکام کے مطابق ایک ماہ میں تقریباً 15 ہزار لوگوں کے معائنوں کے دوران کم سے کم پانچ سو افراد کو ایچ آئی وی سے متاثر قرار دیا گیا ہے۔

کھیتوں اور پھل دار درختوں سے گھرے ایک بڑے میدان میں کچھ کچے اور کچھ پکے گھر بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی گھر کی چار دیواری نہیں ہے۔ مسجد سے امام کے خطبے کی آواز گونج رہی ہے۔ ایک گھر کے آنگن میں لگے ہینڈ پمپ کے کنارے ایک کمسِن لڑکی برتن مانج رہی ہے۔ گھر کے دالان میں رکھی ہوئی چارپائی پر نازیہ (فرضی نام) بیٹھی ہوئی ہیں۔

نازیہ نے اپنے شیر خوار بیٹے کو گود میں لے رکھا ہے۔ ایک ہاتھ سے اس کے سر کو سہارا دے رکھا ہے جبکہ دوسرے ہاتھ میں دودھ کی بوتل تھامے ہوئے ہیں۔ بیٹے پر ٹکٹکی باندھ کر کسی سوچ میں گُم ہیں۔

تین بچوں کی ماں نازیہ کا یہ بیٹا تین ماہ پہلے لاڑکانہ کے ایک ہسپتال میں آپریشن کے ذریعے پیدا ہوا۔ آپریشن کے دوران خون ضائع ہونے کی وجہ سے انہیں خون کی دو بوتلیں لگائی گئی تھیں۔

کچھ عرصے بعد انہیں مسلسل بخار رہنے لگا تو وہ اپنے گاؤں سے چند کلومیٹر دور تحصیل رتوڈیرو کے ہسپتال گئیں۔ وہاں  کچھ ٹیسٹ کر کے انہیں بتایا گیا کہ ماں اور بیٹے، دونوں ایچ آئی وی پازیٹیو ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے نازیہ نے کہا: ’بچے میں اس بیماری کی تشخیص کا سن کر میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ میری بیماری سے زیادہ مجھے بچے کی فکر ہونے لگی۔‘

پریشان ماں نے مزید تصدیق کے لیے بچے کو اٹھایا اور رتوڈیرو سے لاڑکانہ کے بڑے ہسپتال جا پہنچی۔ وہاں کے ڈاکٹروں نے رتوڈیرو ہسپتال کی رپورٹ کو رد کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ ان کے بچے میں ایچ آئی وی نہیں ہے البتہ انہیں ایچ آئی وی ہے۔

یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایڈز کی بیماری کا سبب بننے والا وائرس ایچ آئی وی نازیہ کے خون میں میں بیٹے کی والادت کے وقت لگائے گئے خون کے ذریعے منتقل ہوا یا اس کی وجہ کوئی اور تھی۔

’ڈاکٹروں نے کہا کہ بچے کو اپنا دودھ پلانے سے گریز کرو اور بازار کا دودھ بوتل میں ڈال کر پلاؤ۔  میں نے احتیاط کے طور پر اپنے لختِ جگر کو اپنی بہن کے سپرد کر دیا ہے۔ کہیں اسے میرا موذی مرض نہ لگ جائے۔ اب میں بچے سے کم ہی ملتی ہوں تاکہ بڑا ہو کر وہ میری بہن کو اپنی ماں سمجھے۔‘

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایچ آئی وی سے متاثرہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو دو سال کی عمر تک اپنا دودھ پلا سکتی ہیں۔ لیکن رتوڈیرو کی خواتین میں ایسی آگاہی کم ہے۔

نازیہ کے شوہر سعودی عرب میں مستری ہیں۔

’میرے شوہر کو فون پر بیماری کا بتایا گیا تو وہ سکتے میں آ گئے۔ اب تو سنا ہے کہ وہ کام پر بھی نہیں جا رہے اور بہت پریشان ہیں کہ کسی بھی طرح میرا علاج ہو جائے۔‘

سندھ میں ضلع لاڑکانہ کی تحصیل رتوڈیرو کے کئی دیہات کے مرد سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ایچ آئی وی سے متاثرہ کئی مریضوں کے سعودی عرب میں کام کرنے والے عزیز و اقارب وطن واپسی پر غور کر رہے ہیں۔

نازیہ سمیت ان کے گاؤں کے چار افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق کے بعد گاؤں کا ہر شخص اپنے خاندان کو معائنے کے لیے رتوڈیرو کے تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال لے کر جا رہا ہے۔ ان کا گاؤں شہر سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس کی سڑک کی تعمیر کچھ عرصہ قبل شروع ہوئی تھی۔ البتہ ٹھیکیدار نے سڑک پر محض پتھر پھیلا دیے اور سڑک پکی نہیں کی جس کی وجہ سے آج کل گاؤں سے شہر تک پہنچنے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔

تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال کی صورتحال

تیس بستروں پر مشتمل رتوڈیرو تحصیل کا سرکاری ہسپتال رنگ و روغن اور صفائی ستھرائی کے لحاظ سے سندھ کے اکثر ہسپتالوں کی نسبت بہتر دکھائی دیا۔ بجلی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے سولر پینل اور جنریٹر لگے ہوئے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں ایچ آئی وی کی وبا کے بعد ہسپتال کے اندر شامیانہ لگا کر کرسیاں رکھ دی گئی ہیں تاکہ ٹیسٹ کے لیے آنے والی خواتین سائے تلے بیٹھ کر انتظار کرسکیں۔ شامیانے کے باہر ٹھنڈے پانی کے تین ٹینکیاں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ ٹیسٹ کے لیے خون کے نمونے دیتے وقت ہر فرد کو منرل واٹر کی بوتل، جوس اور بسکٹ دیئے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرد حضرات کی انتظارگاہ ہسپتال کے برآمدے میں بنائی گئی ہے۔ ٹیسٹ لینے کا سلسلہ سات وارڈز میں جاری رہتا ہے جن میں سے دو مردوں جبکہ پانچ وارڈ خواتین کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

ابتدائی مرحلے میں ہسپتال کے ٹیکنیشن ہر فرد کا خون نکالنے کے بعد کاغذ پر بنی میڈیکل کٹ پر لگاتے ہیں۔ چند لمحوں بعد خون کے برابر لگے خانے میں رنگ کی تبدیلی سے ٹیسٹ کے مثبت یا منفی ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

پہلے مرحلے میں جس فرد میں مثبت تشخیص ہو جائے، اسے دوسرے کمرے میں مزید ٹیسٹوں کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ تیسرے اور حتمی ٹیسٹ کے لیے لوگوں کو لاڑکانہ بھیجا جاتا ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ حتمی ٹیسٹ کے لیے جن لوگوں کو لاڑکانہ جانے کی ضرورت پڑے گی، انہیں ہسپتال کی ایمبولینس فراہم کی جائے گی مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ 

ایچ آئی وی سے متاثرہ لوگوں کی تعداد

رتوڈیرو تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر رامیش لال شیٹیا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 24 اپریل سے 17 مئی تک ان کے ہسپتال میں 15 سے 16 ہزار لوگوں کا ٹیسٹ ہو چکا ہے جن میں پانچ سو سے چھ سو تک مثبت کیسز نکلے۔ اُن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ ڈاکٹر شیٹیا کے مطابق مقامی میڈیا کی جانب سے خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی وجہ سے لوگوں میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔

اس بیماری کے اچانک وبا کی صورت اختیار کرنے کی وجوہات مکمل طور پر واضح نہیں ہیں۔ لیکن زیادہ شک عطائی معالجوں پر کیا جا رہا ہے۔ چند اخبارات میں لاڑکانہ کے ایک ڈاکٹر مظفر گھانگھرو پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے نجی ہسپتال میں علاج کے دوران ایک ہی سرنج سے سب مریضوں کو انجیکشن لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے اتنے کیسز سامنے آئے۔ ان خبروں کے بعد ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ کے حکم پر ڈاکٹر مظفر کو گرفتار کرلیا گیا جو اس وقت عدالتی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں، تاہم انہوں نے پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں تمام الزامات کی تردید کر دی ہے۔

بے یقینی، تذبذب اور پریشانی

کئی لوگوں کو شکایت ہے کہ رتوڈیرو ہسپتال میں ایچ آئی وی کے ٹیسٹ درست طریقے سے نہیں ہوتے۔ بعض کیسِز میں رتوڈیرو ہسپتال نے ایچ آئی وی منفی قرار دیا لیکن جب وہی لوگ مسلسل بخار یا کوئی اور بیماری ٹھیک نہ ہونے پر آغا خان ہسپتال کراچی گئے تو وہاں ایچ آئی وی مثبت پائے گئے۔

جو لوگ ایچ آئی وی سے متاثرہ قرار دیے جا چکے ہیں، وہ تذبذب کا شکار ہیں کہ علاج کیسے اور کہاں سے کروائیں؟ رتوڈیرو ہسپتال جاتے ہیں تو انہیں لاڑکانہ بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں جانے پر یا تو انہیں کراچی ریفر کردیا جاتا ہے یا پھر چند گولیاں دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔ متاثرہ لوگوں کی مستقل دیکھ بھال اور علاج معالجے کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے اب تک کوئی تسلی بخش اعلان نہیں ہوا ہے۔

وہ لوگ جن کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں، انہیں پریشانی ہے کہ خود کو کیسے محفوظ رکھیں۔

سب سے زیادہ لوگ اپنے بچوں کے لیے پریشان ہیں۔ جو بچے ایچ آئی وی پازیٹو ہوگئے ہیں، ان کے والدین کو فکر ہے کہ علاج کہاں سے ہو گا اور ان کا مستقبل کیا ہو گا، جبکہ منفی نتیجے والے بچوں کے والدین کو کشمکش کے شکار ہیں کہ اپنے بچوں کو بیماری سے کیسے بچائیں۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بیمار ہونے پر ڈاکٹر کے پاس اس خوف سے نہیں جا رہے کہ کہیں انجیکشن لگنے سے ایچ آئی وی سے متاثر نہ ہو جائیں۔

رتوڈیرو میں ایچ آئی وی وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ مگر اب بھی ایک درجن سے زائد نجی کلینک اور ہسپتال کام کر رہے ہیں جن میں اکا دکا کے سوا تمام نجی طبی مراکز عطائی ڈاکٹر ہی چلا رہے ہیں۔

رتوڈیرو کی سیاسی اہمیت

رتوڈیرو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی شہر ہے۔ اسی تحصیل کے گاؤں گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کا آبائی قبرستان ہے جہاں سر شاہنواز بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور بھٹو خاندان کے دیگر افراد دفن ہیں۔

رتوڈیرو تحصیل صوبے میں برسرِ اقتدار اور وفاق میں حزبِ اختلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کی پھوپھی فریال تالپور کے انتخابی حلقے میں آتی ہے۔ بلاول بھٹو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 200 سے جبکہ فریال تالپور سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 10 سے منتخب ہوئے ہیں۔

بلاول بھٹو کے ووٹر سماجی بائیکاٹ سے دوچار

رتوڈیرو کے گاؤں اللہ ڈنو سیلرو کے باسی پیپلز پارٹی کے حامی رہے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں بھی انہوں نے بلاول بھٹو کو ووٹ ڈالے اور بھٹو خاندان کے یہ سیاسی جانشین انہی لوگوں کے ووٹوں سے جیتنے کے بعد پہلی مرتبہ پارلیمان میں پہنچے۔

یہاں ایچ آئی وی کے 21 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان میں سے دو لوگوں کی اموات واقع ہو گئیں۔ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ اموات کا سبب ایچ آئی وی تھا بھی یا نہیں لیکن یہ گاؤں سماجی بائیکاٹ جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔

ایچ آئی وی کے خوف سے آس پاس کے گاؤں کے لوگ اس گاؤں میں آنے سے کتراتے ہیں۔ سماجی رابطے منقطع ہو گئے ہیں اور باہر کے لوگوں نے شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں شرکت کرنا بند کر دیا ہے۔

گذشتہ دو ماہ میں اللہ ڈنو سیلرو آس پاس کے علاقوں سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ گاؤں کے رہائشی ایچ آئی وی کے متاثرین کے گھروں سے دور رہتے ہیں۔ متاثرین کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ رات کو اپنا جسم ڈھانپیں یا مچھردانی کا استعمال کریں تاکہ ان کو کاٹنے والے مچھر گاؤں کے دیگر لوگوں میں ایچ آئی وی منتقل نہ کرسکیں۔

جب ہم گاؤں پہنچے تو ایک سیاسی کارکن میگا فون پر گاؤں والوں کو ایچ آئی وی سے بچنے کی احتیاطی تدابیر سنانے کے علاوہ یہ تلقین بھی کر رہے تھے کہ وہ مستقبل میں ووٹ کا درست استعمال کریں۔ کچھ سماجی کارکن آگہی کے لیے خواتین کا اجلاس کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

افواہیں، خوف، گھریلو ٹوٹکے اور توہمات

ہم ایک گھر میں گئے جہاں ایچ آئی وی کے چار متاثرین ہیں۔ ایک خاتون غیر لوگوں کو گھر میں دیکھ کر چھپ گئیں۔ بعد میں انہوں نے مجھے بتایا کہ گاؤں کے لوگوں نے انہیں ڈرایا تھا کہ کچھ لوگ آئیں گے اور چن چن کر ایچ آئی وی کے مریضوں کو ایک ٹیکہ لگائیں گے جس سے ان کی ایک سے دو گھنٹوں میں موت واقع ہوجائے گی۔

عام لوگ ایچ آئی وی کے مریضوں سے ملنے، ہاتھ ملانے حتیٰ کہ ساتھ بیٹھنے سے کترانے لگے ہیں۔

کئی سالوں سے شعبۂ صحت سے منسلک رتوڈیرو ہسپتال کے سپروائزر صغیر گھانگھرو نے بتایا کہ شہر میں ایچ آئی وی کی ایسی دہشت ہے کہ وہ خود خوفزدہ ہو گئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں نے ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص سے ہاتھ ملایا۔ مجھے ایسا خوف محسوس ہوا کہ دوسرے دن میں نے ہسپتال سے ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کروایا۔ جب تک میں نے خود رزلٹ چیک نہیں کیا تب تک چین نہیں آیا۔‘

اس مرض کے خوف سے کئی لوگوں نے ٹھیلے پر ملنے والا جوس پینا چھوڑ دیا ہے۔

نازیہ کے گاؤں میں جب لوگوں کو پتہ چلا کہ ایچ آئی وی خون سے پھیلتا ہے تو ان کے جیٹھ سمیت متعدد لوگوں نے گھر پر ہی استرے رکھ لیے یا شیونگ مشین خرید لی تاکہ بچوں کو بال کٹوانے اور داڑھی منڈوانے کے لیے نائی کے پاس نہ جانا پڑے جس کے آلات کی صفائی کا اعتبار نہیں۔

نازیہ آئندہ ہفتے بلوچستان کے شہر قلات میں ایک روحانی پیر کے ہاں جانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں تاکہ وہاں سے ایچ آئی وی سے جان چھڑانے کا دم کروا سکیں۔  

’میں نے اس بیماری کے ڈر سے اپنے لخت جگر کو اپنی بہن کو دے دیا ہے۔ مگر میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اب ایک امید ہوئی ہے کہ شاید دم کرانے سے میرا مرض ٹھیک ہو جائے اور میں اپنے بیٹے کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار سکوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان