نوسرباز ڈکیت: جب میں نے اپنے کیریئر کا پہلا ڈاکو پکڑا

ہر مجرم کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کرتا ہے۔ میں نے اپنے زندگی کے پہلے ڈاکو کا پتہ یوں لگایا کہ اس نے راستے میں رک کر 20 روپے کی جلیبیاں کھائی تھیں۔

فائل فوٹو (اے ایف پی)

یہ سابق پولیس انسپیکٹر صغیر وٹو کی یادداشتوں پر مبنی سیریز ہے جسے آپ ہر منگل کو پڑھ سکیں گے۔

ایک دن اچانک ایک بجے دوپہر مجھے وائرلیس پر پیغام ملا کہ مسلم کمرشل بنک غلہ منڈی میں ڈکیتی ہو گئی ہے۔ یہ بنک تھانے سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا چنانچہ میں اگلے پانچ منٹوں میں بنک پہنچ گیا۔ پتہ چلا دو لڑکے بنک کے باہر ایک شخص سے روپوں سے بھرا تھیلا چھین کر فرار ہو گئے ہیں۔

یہ واقعہ آج سے ٹھیک 20 برس پہلے 2001 کی گرمیوں کا ہے۔ اس زمانے میں حکومت کی خصوصی ہدایت پر پنجاب بھر میں ماڈل تھانے بنائے گئے تھے۔ ماڈل تھانوں کے قیام کا مقصد تھانہ کلچر میں تبدیلی لانا تھا۔ ہر ضلعے میں کم از کم دو تھانوں، (ایک شہری اور دوسرا دیہاتی) کو ماڈل تھانے کا درجہ دے دیا گیا۔

ماڈل تھانوں میں جہاں سائلوں کے بیٹھنے کے لیے نیا فرنیچر منگوایا گیا اور ٹائلٹس بنوائے گئے، وہاں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ان ماڈل تھانوں میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت بھرتی کیے گئے ڈائریکٹ انسپکٹرز کو ایس ایچ او تعینات کیا جائے۔  

ضلع وہاڑی میں ہم پانچ پولیس انسپکٹر تھے جن میں سے دو کو ایس ایچ او لگایا جانا تھا، چنانچہ ایس پی ضلع نے مفصل انٹرویوز اور جانچ پڑتال کے بعد دو افسران کے آرڈرز جاری کر دیے جن میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ میرا تعلق دیہات سے تھا چنانچہ مجھے ایس ایچ او تھانہ ’گگو منڈی‘ بوریوالہ تعینات کر دیا گیا۔

تھانہ گگو منڈی رقبے کے لحاظ سے پنجاب کا دوسرا بڑا جبکہ جرائم کی شرح کے لحاظ سے صوبے بھر میں پہلے نمبر پر تھا۔

جرائم کی شرح اس قدر زیادہ ہونے کے اسباب بہت سے تھے جن میں ایک بڑا سبب تھانہ گگو منڈی کی جغرافیائی حدود کا تھا۔ 187 دیہات پر مشتمل اس تھانے سے چار اضلاع کی حدود متصل تھیں جن میں پاک پتن شریف، ساہیوال، وہاڑی اور بہاولنگر کے اضلاع شامل تھے جرائم پیشہ افراد تھانہ گگو منڈی کی حدود میں واردات کرتے اور آنأ فانأ دوسرے ضلع کی حدود میں داخل ہو جاتے لہٰذا ملزمان ضلع وہاڑی میں ناکہ بندی کروائے جانے کے باوجود پکڑ میں نہ آتے۔ یوں مقدموں کی تعداد بڑھتی رہتی۔

جب مجھے ایس ایچ او تھانہ گگو منڈی تعینات کیا گیا اس وقت پولیس میں یہ مثل مشہور تھی کہ ’گگو۔۔۔ کدی نہ لگو‘ (یعنی گگو تھانے میں کبھی پوسٹنگ پر مت جاؤ)۔

لیکن ہم چونکہ نوجوان تھے پرعزم تھے، عمر بھی 21، 22 سال تھی۔ قائداعظم یونیورسٹی سے تازہ تازہ تعلیم مکمل کر کے میدان عمل میں آئے تھے، لہٰذا ہم نے اس پوسٹنگ کو بطور چیلنج قبول کیا۔

سب سے پہلے تو میں نے مقامی لوگوں کے تعاون سے گگو تھانے سے متعلقہ حدود پر مستقل ناکہ بندی کروائی، بیریئر لگوائے تاکہ تھانے کی حدود میں آنے، جانے والوں کی نگرانی کی جا سکے۔ رات کو نوجوانوں کی ٹولیاں پولیس ملازمین کے ہمراہ یہاں پہرہ دیتیں۔ میں بھی دوران گشت، کسی نہ کسی چیک پوسٹ پر رکتا اور وہاں ان نوجوانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارتا۔ ان حفاظتی تدابیر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ چند ماہ میں سنگین جرائم مثلاً (ڈکیتی، راہزنی وغیرہ) میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ ہم نے بہت سے اشتہاری مجرمان کو ان چیک پوسٹوں کی وجہ سے گرفتار بھی کر لیا۔لیکن ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود مہینے میں ایک آدھ سنگین واردات ہو جاتی۔

عیدالاضحیٰ کے دن قریب تھے بازاروں میں خریداروں کا رش تھا ہم نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جو دن رات مویشی منڈی، بڑے بازاروں اور رش والے علاقوں میں موٹر سائیکلوں پر گشت کرتے۔

تو میں بتا رہا تھا کہ ایک دن اچانک ایک بجے دوپہر مجھے وائرلیس پر پیغام ملا کہ بنک ڈکیتی ہو گئی ہے۔ یہ بنک تھانے سے قریب ہی تھا۔ میں نے گاڑی پکڑی اور پانچ منٹوں کے اندر اندر پہنچ گیا۔ ملاحظہ کیا، تفصیلات اکٹھی کیں تو معلوم ہوا کہ واردات بنک کے اندر نہیں بلکہ بنک کے مین گیٹ پر ہوئی ہے۔ ایک معمر شخص چار لاکھ روپے کا چیک کیش کروا کر بنک سے نکل رہا تھا کہ دو نوجوانوں نے اس سے رقم والا تھیلا چھینا اور سیاہ رنگ کے بغیر نمبر پلیٹ والے 125 موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے۔

جائے واردات ہر موجود عینی شاہدین نے بتایا کہ واردات موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھے نوجوان نے کی ہے، جبکہ موٹر سائیکل چلانے والا شخص بھاری جسامت کا تھا جو اس واردات کے دوران مسلسل موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے، سیاہ رنگ کا ہیلمٹ پہنے کھڑا رہا، جونہی اس کا ساتھی تھیلا چھین کر پہنچا اس نے اسے بٹھایا اور موٹر سائیکل بھگا دی۔ ہم نے عینی شاہدین کی نشاندہی پر ان مجرمان کا پیچھا شروع کر دیا۔ عینی شاہدوں نے بتایا تھا کہ موٹر سائیکل کو شیخ فاضل روڈ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

موٹر سائیکل کے ٹائر موٹے اور نسبتاً نئے تھے، لہٰذا ہمیں ان ٹائروں کے نشانات آسانی سے مل رہے تھے۔ کچھ دور مطلوبہ موٹر سائیکل کے ٹائروں کے نشانات ایک چائے جلیبی کے کھوکھے کی طرف مڑتے دکھائی دیے، چنانچہ ہم نے اس کھوکھے پر رک کر وہاں موجود لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔

یہاں ہمیں مزید کارآمد شہادتیں موصول ہو گئیں، کیونکہ ملزمان نے یہاں رک کر 20 روپے کی جلیبیاں خریدی تھیں۔

جلیبیوں والے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہیلمٹ والے شخص کی عمر 25/26 سال کے لگ بھگ ہے، گول چہرہ بھاری مونچھیں اور بھاری بھرکم جسم تھا اور موصوف نے پولیس کٹنگ کروا رکھی تھی۔

دوسری بات جو ہمیں پتہ چلی وہ یہ کہ موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ کی جگہ چھوٹی سی سبز رنگ کی نمبر پلیٹ پر ’سیشن کورٹ‘ لکھا ہوا تھا۔

اور تیسری اہم چیز ہمیں ان کی اگلی سمت کا علم ہو گیا۔ یہ ملزماں کو ٹریس کرنے کے لیے کافی اہم شہادتیں تھیں۔

ملزمان آدھا گھنٹہ قبل اس کھوکھے سے شمال مغرب کی طرف جاتے ہوئے کچے راستے پر روانہ ہوئے تھے۔ راستہ کچا ہونے کے باعث اس پر موٹر سائیکل کے ٹائروں کے نشانات واضح دکھائی دے رہے تھے، چنانچہ ہم ان ٹائروں کے نشانات کی مدد سے بہت جلد 323 چک اوڈاں والا پہنچ گئے جہاں موٹر سائیکل کی آمد کے شواہد موجود تھے۔

گاؤں کے شروع میں ہی ایک دو دکانداروں نے نہ صرف موٹر سائیکل کی گاؤں آمد کی تصدیق کی بلکہ موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھے ہوئے، رقم چھیننے والے لڑکے کا بھی بتایا کہ وہ نصیر اوڈ کا بھانجا ہے جو کافی عرصے سے لاہور مقیم ہے۔

بس ہم اب ملزمان کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ ہم سیدھا مقامی افراد کی نشاندہی پر نصیر اوڈ کے گھر پہنچے۔ نصیر اوڈ کا نوعمر لڑکا گھر میں موجود تھا۔ میں نے اس سے موٹر سائیکل سواروں کا پوچھا۔ پہلے تو اس نے آئیں بائیں شائیں کی لیکن پھر مان گیا کہ اس کا کزن اعجاز عرف ججی اوڈ لاہور سے اپنے دوست کے ساتھ میرے باپ کو ملنے آیا تھا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ میرا باپ شادی میں شرکت کے لیے خانیوال گیا ہوا ہے اور مزید دو روز نہیں آئے گا تو وہ دونوں کچھ دیر رکنے اور چائے پینے کے بعد یہاں سے چلے گئے۔

یہ لڑکا ہمارے لیے انتہائی اہم تھا، چنانچہ ہم اسے لے کر مزید تفتیش کے لیے قریبی زمیندار کے ڈیرے پر آ گئے۔ اس لڑکے کو اعتماد میں لیا کہ اگر وہ ہمیں سب کچھ سچ سچ بتا دے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

لڑکے نے بتایا کہ میرا کزن ججی اوڈ دس سال سے لاہور میں رہتا ہے جس کا پتہ اس کو معلوم نہیں ہے، البتہ ججی نے جاتے ہوئے اپنا ٹیلیفون نمبر سگریٹ کی ڈبیا پر اسے لکھ کر دیا تھا تاکہ میں وہ نمبر اپنے باپ کو دوں جو اس وقت اس کی والدہ یعنی نصیر اوڈ کی بیوی کے پاس ہے۔ ہم فوراً لڑکے کو لے کر دربارہ نصیر اوڈ کے گھر آئے اور وہ سگریٹ کی خالی ڈبیا، جس پر ججی اوڈ کا نمبر درج تھا قبضے میں لی اور نصیر اوڈ کو مقامی زمیندار کی ضمانت پر چھوڑ دیا۔

اب ہمیں فوری طور پر اس نمبر کا کھوج لگانا تھا، چنانچہ میں نے اپنے ایک دوست جو ٹیلیفون کے محکمے میں ایس ڈی او تھے، انہیں دیا اور اس نمبر پر آبزرویشن بھی لگوا دی۔ کچھ ہی دیر میں اس نمبر کی معلومات، گھر کا ایڈریس ہمارے سامنے تھا۔ یہ نمبر سمن آباد لاہور کے ایک گھر کی بالائی منزل پر لگا ہوا تھا۔

اب کافی معلومات ہمارے پاس موجود تھیں، اب ہمیں جلد از جلد اعجاز عرف ججی اوڈ کو پکڑنا تھا تاکہ وہ کہیں روپوش نہ ہو جائے۔

میں نے قریبی ایک پبلک کال آفس سے ایس پی صاحب کو فون کر کے تفصیلات سے آگاہ کیا اور ان سے سمن آباد لاہور میں ریڈ کی اجازت چاہی۔ ایس پی صاحب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے نہ صرف ہمیں اجازت مرحمت فرمائی بلکہ ایک ایلیٹ پولیس کی گاڑی بھی ہمارے ہمراہ روانہ کر دی۔ ابھی رات ہو چکی تھی ہم نے رات دو بجے وہاڑی سے لاہور نکلنے کا فیصلہ کیا تاکہ ہم علی الصبح مطلوبہ جگہ پر پہنچ جائیں۔

پروگرام کے مطابق ہم نے ایک چھوٹی ہائی ایس کرایہ پر لی اور ریڈنگ پارٹی تشکیل دے کر لاہور روانہ ہو گئے۔ ایلیٹ کی گاڑی بھی حسب ہدایت کچھ فاصلے پر ہمارے ہمراہ تھی۔

ایس پی صاحب نے ایس پی سمن آباد کو ہماری آمد کی اطلاع کر دی تھی۔ ہم ساڑھے تین گھنٹوں میں لاہور پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر میں ہم سمن آباد تھانے میں تھے چونکہ یہ دوسرا ضلع تھا لہٰذا ہمیں تھانے کے روزنامچے میں اپنی آمد روانگی کا اندراج کرنا تھا۔ ہم نے ضروری کاغذی کاروائی کے بعد ایڈریس کی نشاندہی کے لیے تھانہ سمن آباد کے چند اہلکار بھی ساتھ لیے اور مطلوبہ پتے پر پہنچ گئے۔

میں نے ریڈنگ پارٹی کو گھر کے آس پاس مختلف جگہوں پر کھڑا کیا اور سادہ کپڑوں میں ملبوس تین جوان، جن میں ایک ایلیٹ کا جوان بھی تھا، اپنے ساتھ لیے اور سیڑھیاں چڑھ کر اس گھر کی بالائی منزل پر پہنچ گیا، جہاں ٹیلیفون نمبر لگا ہوا تھا۔

مالک مکان کو ہم پہلے ہی اپنی تحویل میں لے چکے تھے۔ بالائی منزل کے لیے سیڑھیاں باہر الگ سے دی گئی تھیں۔ ہم نے مالک مکان سے گھر کی بیل بجوائی اور اسی کے ذریعے اعجاز کو آواز دلوائی۔ مالک مکان کی آواز پر جونہی دروازہ کھلا تو بنیان اور ٹروزر میں ملبوس لڑکا باہر نکلا۔ ہم نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے اسے دبوچ لیا۔

یہ کوئی اور نہیں اعجازِ عرف ججی تھا۔ ہم نے اس کے ہاتھ پیچھے باندھ کر ہتھکڑی لگائی اور اسے دوبارہ گھر کے اندر لے گئے۔ یہ چھوٹا سا چوبارہ تھا جس میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ایک کمرے میں کاٹھ کباڑ پڑا تھا جبکہ دوسرے کمرے میں یہ میاں بیوی رہائش پذیر تھے۔ ہم نے کمرے کی مکمل تلاشی لی مگر وہاں سے کچھ برآمد نہ ہوا۔ میری چھٹی حس بار بار کہہ رہی تھی کہ لوٹی ہوئی رقم کا کچھ نہ کچھ ثبوت ہمیں یہاں سے ضرور مل جائے گا۔

اچانک میری نظر ٹی وی ٹرالی کے نیچے والے حصے پر گئی۔ اسے چیک کیا تو وہ لاک تھا۔ جب ان سے چابیاں مانگیں تو انہوں نے کہا کہ چابیاں شروع دن سے نہیں ہیں۔ بات ہضم ہونے والی نہیں تھی۔

میں نے ہینڈل کو پکڑ کر اپنی طرف جھٹکا دیا تو جھٹ سے ٹرالی کے نیچے لگی دراز کا دروازہ کھل گیا۔ اور پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں سامنے آ گئیں۔ جب نوٹوں کی گڈیاں چیک کی گئیں تو ان کے اوپر گذشتہ روز کی تاریخ کے ساتھ ایم سی بی گگو منڈی کی مہر لگی ہوئی ملی۔ اب ہم مکمل طور پر ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ ملزم کو گرفتار کر چکے تھے۔

جب ہم ملزم کو لے کر نیچے پہنچے تو گلی میں ایک جم غفیر تھا۔ معززین علاقہ جمع تھے اور پولیس کے خلاف نعرے کس رہے تھے۔ اسی مجمع سے ایک صاحب جو پیشے کے اعتبار سے سپیشلسٹ ڈاکٹر تھے اور اسی محلے کے رہائشی تھے، آگے بڑھے اور کہنے لگے، ’جناب یہ لاہور ہے، یہاں پولیس گردی نہیں چلے گی۔ اعجاز صاحب، جسے آپ گرفتار کر کے لے جانا چاہ رہے ہیں، ہمارے محلے کے شریف ترین آدمی ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ سیشن کورٹ میں کام کرتے ہیں۔‘

میں نے ان کی پوری بات تسلی سے سنی اور پھر انہیں اپنے پاس بلایا اور فائل کھول کر ایف آئی آر کی کاپی دکھائی جس پر بنک کا نام اور تاریخ واضح طور پر درج تھی پھر انہیں برآمد ہونے والے نوٹوں پر لگی مہریں دکھاتے ہوئے کہا کہ اس سے خود پوچھ لیں کہ یہ سب کیا ہے؟

اعجاز عرف ججی اوڈ سر جھکائے کھڑا تھا اور محلے کے لوگ حیرانی کے عالم میں انگشتِ بدنداں تھے۔

ہم نے اعجاز عرف ججی کو اپنے ساتھ وین میں بٹھایا اور واپس وہاڑی کا قصد کیا۔ راستے میں ججی اوڈ سے پوچھ گچھ کرتا رہا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ججی اوڈ کے خلاف کسی تھانے میں کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں تھا اور اس کے محلے والوں کا ہمدردانہ رویہ بھی میری سمجھ سے باہر تھا چنانچہ میں نے اسے کریدنا شروع کر دیا تاکہ وہ سچ اگل دے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اعجاز عرف ججی نے مجھے بتایا کہ ’سر پہلی بات تو یہ ہے کہ میں ڈاکو یا چور نہیں۔ میں نوسرباز ہوں۔ میں سمن آباد لاہور والے گھر میں پچھلے چھ سال سے کرائے پر رہ رہا ہوں۔ اپنے محلے کی مسجد کمیٹی کا رکن ہوں اور محلے کے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہوں۔ میں نیا 125 ہنڈا موٹر سائیکل خرید لیتا ہوں اور ہر چھ ماہ کے بعد بیچ کر نیا لے لیتا ہوں۔ یہاں سب محلے والوں کو یہی پتہ ہے کہ میں سیشن کورٹ میں ملازم ہوں جبکہ میں روزانہ صبح دھندے پر نکلتا ہوں اور شام تک دھوکہ دہی سے پانچ دس ہزار کی دیہاڑی لگا کر گھر آ جاتا ہوں۔‘

اس نے مزید بتایا کہ دراصل وہ ’ٹھپی لگانے‘ کا ماہر ہے۔ ٹھپی سے مراد ہاتھ کی صفائی ہے۔

اس نے بتایا کہ وہ روزانہ کسی بڑی مارکیٹ کا انتخاب کرتا اور وہاں کے کسی بڑے سٹور پر جا کر چار، پانچ سو روپے کی خریداری کرتا  ہے اور پھر پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر دکاندار کے حوالے کرتا ہے۔ جونہی دکاندار نوٹ کو پکڑنے لگتا ہے، وہ اچانک ریکس میں پڑی ہوئی کسی اور چیز کی طرف اشارہ کر کے اس کا ریٹ پوچھتا ہے اور انتہائی چالاکی سے وہ نوٹ واپس اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے، اور دوکاندار سے بقایا طلب کرتا ہے۔

دکاندار یہ سمجھتا ہے کہ اس نے پیسے وصول کر لیے ہیں، لہٰذا وہ بقایا ساڑھے چار ہزار روپے نوسرباز کے حوالے کر دیتا۔ اسے نوسرباز اپنی زبان میں ’ٹھپی لگانا‘ کہتے ہیں۔

جب ہم نے بینک والی واردات کی بابت پوچھ گچھ کی کہ اس نے ڈکیتی کیوں کی تو اس نے کہا کہ ’میں عارف والا میں اپنے بچپن کے دوست ارسلان کو موٹر سائیکل بیچنے آیا تھا۔ ارسلان نے مجھے کہا کہ اسے ٹھپی لگانا سکھاؤں، چنانچہ اسے لیکر گگو مارکیٹ کی طرف نکل آیا لیکن ہمیں کوئی بڑا سٹور نہیں ملا۔ چنانچہ میں نے اسے کہا کہ عید کا موقع ہے بنک سے لوگ بڑی رقمیں لے کر نکلتے ہیں وہاں بزرگوں سے پیسے گنتی کرتے ہوئے کچھ نوٹ نکال لیں گے۔ ارسلان نے انکار کر دیا کہ میں ایسا نہیں کر سکوں گا لیکن میں نے اسے مجبور کیا کہ وہ صرف موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے کھڑا رہے تب تک میں اپنی کاروائی مکمل کر لوں گا۔‘

ججی اوڈ نے بتایا کہ جونہی وہ مسلم کمرشل بینک کے سامنے پہنچے تو اس نے ایک بزرگ کو تھیلا ہاتھ میں پکڑے بینک سے نکلتے دیکھا۔ ’میں ان کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ اس بنک کا کیشیئر انتہائی بےایمان آدمی ہے، ہر گڈی سے بڑے نوٹ نکال لیتا ہے۔ لائیں میں آپ کو گنتی کر دوں، اگر کسی گڈی میں نوٹ کم ہوئے تو ہم فوراً بینک سے تبدیل کروالیں گے۔

’میں نے یہ سب اتنے اعتماد سے کہا کہ بابا جی نے تھیلا میرے حوالے کر دیا۔ میں نے وہیں کھڑے ہو کر پیسے گننے شروع کر دیے ابھی میں نے ایک ہی گڈی میں سے چند نوٹ کھسکائے تھے کہ بابا جی کو شک پڑ گیا اور انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا، پھر ہمارے پاس بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔‘

بعد ازاں ہونے والی تحقیقات نے بھی ججی اوڈ کے مؤقف کی تائید کی۔ ارسلان کو بھی ہم نے عارف والا سے گرفتار کر لیا اور اس نے بھی من و عن ججی کے بیان کی تائید کی۔ لیکن چونکہ ایف آئی آر کا مدعی مصر تھا کہ اس کے ساتھ ڈکیتی ہوئی ہے لہٰذا ہمیں مجبوراً اسے ڈکیتی کی دفعات 392 تعزیرات پاکستان کے تحت چالان کرنا پڑا، البتہ ارسلان کی بابت مدعی مقدمہ نے بیان دے دیا کہ وہ اس کا مجرم نہیں ہے۔ لہٰذا اس کا نام مقدمہ سے قلمزد کر دیا گیا۔

میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا کہ میں نے بینک ڈکیتی کی سنگین واردات کا 24 گھنٹوں میں نہ صرف سراغ لگایا، بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے ملزمان کو گرفتار کر کے مال مقدمہ بھی برآمد کر لیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی