صوبہ سندھ کے مشرق میں انڈین سرحد سے متصل صحرائی ضلع تھر پارکر کے نواحی گاؤں میں دو دن تک نظر آنے والے تیندوے کو مقامی افراد نے ہلاک کر دیا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی ڈائریکٹر میر اعجاز تالپور کے مطابق تھرپارکر کی تحصیل سلام کوٹ میں ہلاک کیا جانے والا جانور بالغ نر ’انڈین لیپرڈ‘ تھا، جسے گاؤں موڑاڈو کے رہائشیوں نے پہلے فائرنگ سے زخمی کیا، اور بعدازاں کلہاڑیوں کے وار کر کے ہلاک کر دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں میر اعجاز تالپور نے بتایا: ’تیندوا دو روز قبل گاؤں میں نظر آیا تھا۔ اطلاع ملنے پر میں خود بھی گاؤں گیا، جہاں میں نے چند فٹ کے فاصلے پر جا کر تیندوے کو دیکھا اور گاؤں والوں کو سمجھایا کہ جنگلی جانور کو تنگ نہ کیا جائے، ہم اسے ایک یا دو دن میں زندہ پکڑ کر لے جائیں گے۔
’ہمارا منصوبہ تھا کہ تیندوے کو بے ہوش کر کے پکڑیں، اور بلوچستان کی سرحد سے متصل حیاتی تنوع کے مرکز کھیرتھر نیشل پارک میں چھوڑ دیں۔‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جانوروں کو بے ہوش کرنے والی بندوق کے کراچی سے آنے سے پہلے ہی گاؤں والوں نے تیندوے کو ہلاک کر دیا۔
ڈیڑھ سال قبل بھی صحرائے تھر میں تقریباً اسی عمر کے ایک دوسرے تیندوے کو ہلاک کیا گیا تھا۔
میر اعجاز تالپور نے دیہاتیوں کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تندوے نے کسی مویشی پر حملہ نہیں کیا تھا۔ ’تیندوا اپنے خوراک کے لیے ہر وقت بڑے جانور کا شکار نہیں کرتا۔ وہ چھوٹے جانور جیسے خرگوش، گلہری، چوہے وغیرہ کھا کر بھی گزارا کر لیتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جنگلی حیات سے متعلق قانون کے تحت تیندوے کو ہلاک کرنا جرم ہے، اور اس لیے محکمہ جلد ہی مقدمہ درج کر کے تیندوے کی ہلاکت میں ملوث افراد کو گرفتار کریں گے۔
ہلاک ہونے والا جانور چیتا تھا یا تیندوا؟
تھر میں ہلاک ہونے والے جانور کو مقامی لوگ اور اخبارات چیتا پُکار اور لکھ رہے ہیں، جبکہ ماہرین کے مطابق یہ ’انڈین لیپرڈ‘ یا تیندوا تھا۔ محکمہ کے صوبائی کنزرویٹر جاوید احد مہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چیتے کی دونوں آنکھوں سے نیچے آنسو کی طرح کالے رنگ کی دھاریا بنی ہوئی ہوتی ہیں، جو انڈین لیپرڈ یا تیندوے کی نہیں ہوتیں۔
’اس کے علاوہ چیتے کی گردن لمبی اور جسم پتلا ہوتا ہے۔ ہلاک ہونے والا جانور انڈین لیپرڈ یا تیندوا ہی تھا۔‘
تیندوے کو محفوظ کیا جائے گا۔
اطلاع ملنے پر محکمہ جنگلی حیات سندھ نے ہلاک ہونے والے تیندوے کے باقیات کو گاؤں موڑاڈو سے بدھ کو کراچی منتقل کر دیا گیا تھا۔
جاوید احمد مہر نے بتایا کہ کہ تیندوے کا ڈی این اے کیا جائے گا، اور اس کا موازنہ ڈیڑھ سال قبل ہلاک کیے جانے والے اسی قسم کے جانور کے ڈی این اے سے کیا جائے گا۔
’جس سے سائنسی طور پر کافی معلومات ملیں گی، اور ان کے مسکن کا بھی اندازہ لگایا جائے گا۔‘
جاوید احمد مہر کے مطابق: ’بعدازاں اس کی باقیات کو حنوط شدہ کر کے محکمہ جنگلی حیات سندھ کے دفتر میں واقع جنگلی حیات میوزیم میں رکھا جائے گا۔‘
تیندوا انڈیا سے آیا؟
سندھ صوبے کو انڈیا کی سرحد دو اطراف سے لگتی ہے۔ سندھ کے جنوب میں انڈین ریاست گجرات واقع ہے، جبکہ مشرق میں ریاستَ راجستھان۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انٹرنیٹ پر موجود گجرات کے محکمہ جنگلات کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈین ریاست میں 2021 میں انڈین لیپرڈ یا تیندوے کی آبادی 3200 جانور ہے۔
رپورٹ کے مطابق ریاست گجرات میں ’گر فاریسٹ نیشنل پارک وائلڈ لائف سینکچوری‘ سمیت تین جنگلات میں انڈین لیپرڈ کی اکثریت رہتی ہے، جبکہ راجستھان میں بھی کئی سفاری پارکوں میں انڈین لیپرڈ موجود ہے۔
سندھ کے ساتھ لگنے والے انڈین سرحد آہنی سلاخوں سے اس طرح بنی ہوئی ہے کہ اس کوئی چھوٹا جانور بھی کراس نہیں کرسکتا۔
میر اعجاز تالپور کے مطابق رن آف کچ کا کچھ حصہ سرحد کے پار تھرپارکر میں بھی ہے، جہاں سے بارش کا پانی گزرتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مذکورہ تیندوا پانی کے بہاؤ کے لیے رکھی جگہ کے راستے تھر آ گیا تھا، تاہم اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
جاوید احمد مہر کے مطابق: ’اس تیندوے کے ڈی این اے کا ڈیڑھ سال قبل ہلاک کیے جانے والے تیندوے کے ڈی این اے سے موازنے کے بعد ہی ثابت ہو گا کہ تیندوے کا تعلق کس علاقے سے ہے۔‘