ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ممکن ہے انہوں نے ہمارے نظامِ شمسی سے گزرتی ہوئی ایک نئی بین النجمی (interstellar) شے دریافت کی ہو۔
یہ شے، جو کسی اور ستارے کے نظام سے آئی ہوئی آسمانی چیز ہے، منگل کو ہوائی یونیورسٹی کی ایسٹروئیڈ ٹیراسیریل-امپیکٹ لاسٹ الرٹ سسٹم (ATLAS) ٹیم نے دریافت کی۔
اس وقت تک یہ واضح نہیں کہ یہ شے کیا ہے یا کیسی نظر آتی ہے کیونکہ یہ مشتری کے قریب سے گزر رہی ہے۔
اب سائنس دان اپنی دریافت کی تصدیق کر رہے ہیں۔
یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) نے بدھ کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ’ای ایس اے کے سیاروی محافظ اس شے کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جسے عارضی طور پر #A11pl3Z کا نام دیا گیا ہے اور دنیا بھر کی دوربینوں سے اسے دیکھا جا رہا ہے۔‘
امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ بھی اس صورتِ حال کی نگرانی کر رہا ہے۔
یونیورسٹی آف ایریزونا کے ’کیٹالینا سکائی سروے‘ کے ڈیوڈ رینکن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ بلو سکائی پر اپنی پوسٹوں میں کہا دریافت کے کچھ دیر بعد ہی اس پر مزید مشاہدات کیے گئے۔
پری کوروی یعنی پرانے مشاہداتی ڈیٹا میں وہ تصاویر جن میں یہ شے پہلے سے موجود تھی مگر اس وقت دریافت نہیں ہوئی تھی — کیلیٹیک کے ’زوکی ٹرانزینٹ فسیلٹی‘ سے ملی، جس سے اشارہ ملا کہ یہ ایک بین النجمی شے ہو سکتی ہے۔
رینکن نے لکھا مزید پری کوروی مشاہدات اور بعد کی تصدیق کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ یہ شے نظامِ شمسی میں ایک ہائپربولک راستے پر ہے۔‘
اس کے بعد سے نئے مشاہدات مسلسل موصول ہو رہے ہیں، جن سے ماہرینِ فلکیات کو اس کے مدار کا اندازہ لگانے میں مدد مل رہی ہے۔
رینکن کے مطابق نظامِ شمسی کا پہلا معلوم بین النجمی شے ‘اومواموا (‘Oumuamua) تھی، جو 2017 میں دریافت ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ شے تقریباً ایک چوتھائی میل لمبی اور اپنی چوڑائی سے دس گنا زیادہ لمبی تھی اور یہ ایک سرخی مائل رنگ کے پتھریلے سگار سے مشابہت رکھتی تھی۔
اس کی لمبائی اور چوڑائی کا تناسب نظامِ شمسی کے کسی بھی معلوم ستارے یا دمدار ستارے سے زیادہ تھا، جس کی وجہ سے بعض افراد نے اسے خلائی مخلوق کا جہاز ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا۔
ناسا کے مطابق، مشاہدات سے پتا چلا کہ یہ شے لاکھوں سالوں سے ہماری ملکی وے کہکشاں میں بھٹک رہی تھی، جب وہ ہمارے نظامِ شمسی میں داخل ہوئی۔
دوسری معلوم بین النجمی شے دم دار ستارہ 2I/بوریسوو تھا، جو 2019 میں دریافت ہوا۔
یہ پہلا تصدیق شدہ بین النجمی دمدار ستارہ ہے، اور بعد میں ہبل سپیس ٹیلی سکوپ نے بھی اس کی تصویر کشی کی۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس طرح کی اور بہت سی اشیا باقاعدگی سے زمین کے قریب سے گزرتی ہیں، جن میں سے کئی سالانہ ہماری زمین کے نسبتاً قریب سے گزرتی ہیں۔
تاہم ان میں سے اکثر کا پتا نہیں چل پاتا کیونکہ انہیں دیکھنا مشکل ہوتا ہے اور یہ جاننا بھی دشوار ہوتا ہے کہ وہ کہاں سے آئی ہیں۔
محققین کو امید ہے کہ وہ مستقبل میں ان اشیا کے بارے میں مزید جان سکیں گے اور انہیں دوسرے ستاروں کے نظام اور سیاروں کے شواہد کے طور پر استعمال کر سکیں گے۔
انہیں یہ بھی امید ہے کہ آنے والے برسوں میں ایسی مزید اشیا دریافت ہو سکیں گی، خاص طور پر نئی اور زیادہ طاقتور دوربینوں کی بدولت، جیسے کہ حال ہی میں فعال کی گئی ویرا سی روبن آبزرویٹری۔
© The Independent