پنجاب یونیورسٹی اور چین کی ووہان یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے چاول کی ایک نئی قسم تیار کی ہے، جس کی فی ایکڑ پیداوار 140 من ہے، جو پہلے سے موجود اقسام سے تین گنا زیادہ ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبے پلانٹس بریڈنگ اینڈ جینیٹکس کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد اشفاق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) نے چاول کی اس قسم کی منظوری دے دی ہے اور آئندہ سال سے اس کا بیج پاکستانی کسانوں کے لیے دستیاب ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نیا مخلوط چاول پاکستان میں تیار ہونے والا پہلا ہانگ لیان قسم کا چاول ہے جس کا نام ’پی یو ‘786 رکھا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس چاول کو بنانے کے لیے چاول کی ایک جنگلی قسم اور ایک مقامی قسم کا کراس کیا گیا جس سے یہ قسم بنی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چاول کی یہ نئی قسم زیادہ درجہ حرارت اور کم پانی میں بھی اس کی پیداواری صلاحیت متاثر نہیں ہوتی، جب کہ اس کی غذائیت بھی بھرپور ہے اور اس میں غذائی اجزا اور مائکرو نیوٹرینٹس کے علاوہ کاربو ہائیڈریٹس وغیرہ بھی موجود ہیں، جو بچوں اور بڑوں کے لیے زود ہضم غذا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پکانے میں یہ چاول بہت اچھا ہے اور اس کا دانے کا سائز پکانے کے بعد اور بڑھ جاتا ہے
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر اشفاق نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا میں زیادہ باسمتی چاول کاشت ہوتا ہے، جس میں خوشبو ہوتی ہے اور وہ لانگ گرین ہوتا ہے۔
’یہ ہائبرڈ چاول بھی نلانگ گرین ہے۔ اس کا فرق یہ ہے کہ یہ چاول کھردرا ہے جبکہ باسمتی چاول کا دانہ فائن ہوتا ہے۔
’کھردرے دانے وال؛ے چاول کو خلیجی ممالک میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ چین اور یورپی ملکوں میں مارکیٹ کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چین نے تو ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ ہم پاکستان میں جتنا بھی ہائی بریڈ چاول پیدا کریں گے وہ ہم سے خرید لیں گے۔ ہم اس چاول کو ان ممالک میں بیچیں گے جس سے ہمارے زرمبادلہ میں کافی اضافہ ہو گا اور ہمارے کسان خوشحال ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا، ’اس چاول کو ہم نے تجرباتی طور پر پورے پاکستان میں پچھلے سال بھی لگایا تھا اور اس سال بھی لگایا ہے۔ ہم اسے چاروں صوبوں میں ٹیسٹ کر چکے ہیں جس کے بعد اسے ورائٹی ایوالوئشن کمیٹی نے منظور کیا اور پھر حکومت نے اس کی منظوری دی۔‘