پاکستان اور انڈیا میں ہلاکت خیز بادل پھٹنے کی سائنسی وجوہات سامنے آگئیں

بادل پھٹنے کے لیے نمی، مون سون اور پہاڑ تین بنیادی عوامل ہیں۔

16 اگست 2025 کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں سیلاب کے ایک دن بعد ایک شخص اپنے تباہ شدہ گھر میں اپنا سامان چیک کر رہا ہے (اے ایف پی)

بادل پھٹنے کے جان لیوا واقعات انڈیا اور پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں تباہی مچا رہے ہیں۔ بڑے اور اچانک آنے والے سیلاب دونوں ممالک میں لوگوں کی جان لے رہے ہیں۔

یہ انتہائی موسمی واقعات مختصر وقت میں محدود علاقوں پر بے پناہ بارش برسانے سے متعلق ہیں۔

پاکستان میں شمال مغربی ضلع بونیر میں ایک ہی بادل پھٹنے کے واقعے نے تقریباً 300 افراد کی جان لے لی۔ طوفانی بارش اچانک سیلاب، پہاڑی تودے گرنے اور بہتے ہوئے کیچر کا سبب بن گئی۔

بڑی چٹانیں ڈھلوانوں سے ٹکرا کر گھروں کو زمین بوس کرتی رہیں اور پورے کے پورے گاؤں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

سب سے زیادہ جاں لیوا واقعات میں سے ایک میں، قادر نگر گاؤں میں ایک ہی خاندان کے 24 افراد اس وقت موت کے منہ میں چلے گئے جب شادی کی تقریب سے ایک دن پہلے سیلابی پانی ان کے مکان میں داخل ہو گیا۔

خاندان کے سربراہ عمر خان نے بتایا کہ وہ اس لیے زندہ بچ گئے کیونکہ اس وقت گھر سے باہر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے چار رشتہ دار ابھی تک نہیں مل سکے۔

پڑوسی ملک انڈیا بھی شدید متاثر ہوا جہاں شمالی ریاست اتراکھنڈ میں اس ماہ کے ابتدائی ایام میں بادل پھٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ مقامی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ کس طرح سیلابی پانی پہاڑ سے نیچے آیا اور ہمالیائی گاؤں دھرالی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

یہ اسی ریاست میں 2013 کے تباہ کن بادل پھٹنے کے واقعے کے بعد کا واقعہ ہے جس میں چھ ہزار سے زائد افراد کی جان گئی اور 4500 گاؤں متاثر ہوئے۔

کلاؤڈ برسٹ یا بادل پھٹنا کیا ہوتا ہے؟

بادل اس وقت پھٹتا پے جب بہت مختصر وقت میں بہت زیادہ بارش ہوتی عموماً ایک گھنٹے کے اندر 100 ملی میٹر (تقریباً چار انچ) سے زیادہ بارش کسی محدود علاقے، یعنی تقریباً 30 مربع کلومیٹر (11.6 مربع میل) پر ہو۔

بادل پھٹنے کے واقعات اچانک اور شدید ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں تباہ کن اثرات مرتب ہوتے اور وسیع پیمانے پر بربادی ہوتی ہے۔ یہ کئی گھنٹوں یا اس سے زیادہ وقت تک معمول کی بارش کے برابر ہو سکتے ہیں۔ اس واقعے میں بادل پھٹ کر اپنا سارا بوجھ ایک ہی وقت میں گرا دیتا ہے جیسے بارش کا بم پھٹ گیا ہو۔

بادل پھٹنے میں کئی عوامل کردار ادا کرتے ہیں جن میں گرم اور نم ہوا کا اوپر اٹھنا، زیادہ نمی، کم دباؤ، عدم استحکام اور کنویکٹیو بادلوں کی تشکیل شامل ہیں۔

نم ہوا جب کسی پہاڑی یا پہاڑ سے ٹکراتی ہے تو اسے اوپر اٹھنا پڑتا ہے۔ یہ اٹھتی ہوئی ہوا ٹھنڈی ہو کر گاڑھی ہو جاتی ہے۔ اس سے بڑے، گھنے اور شدید بارش برسانے کی صلاحیت رکھنے والے بادل بنتے ہیں۔

پہاڑ یا پہاڑیاں رکاوٹ کا کام کرتے ہیں اور اکثر ان بادلوں کو ایک جگہ مقید ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آسانی سے بکھر یا حرکت نہیں کر پاتے۔

طاقتور اوپر اٹھنے والا بہاؤ نمی کو بادلوں کے اندر معلق رکھتا ہے اور بارش کو مؤخر کر دیتا ہے۔ جب بادل مزید جمع شدہ نمی کو تھام نہیں پاتے تو وہ پھٹ جاتے ہیں اور ایک ہی بار میں تمام پانی برسا دیتے ہیں۔

بادل پھٹنے کے واقعات انڈیا اور پاکستان میں کیوں ہوتے ہیں؟

بادل پھٹنے کے لیے نمی، مون سون اور پہاڑ تین بنیادی عوامل ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے خطوں میں یہ تینوں موجود ہیں جس سے یہ علاقے اس قسم کے شدید موسمی واقعات کے لیے نہایت کمزور ثابت ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلے دنیا کی بلند ترین اور مشہور ترین چوٹیوں کا مسکن ہیں، جو انڈیا اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ان دونوں جنوبی ایشیائی ممالک میں بادل پھٹنے کے واقعات کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، جس کی بڑی وجہ گرم ہوتا ہوا ماحول ہے، کیوںکہ گرم ہوا زیادہ نمی سنبھال سکتی ہے اور اس سے اچانک اور شدید بارشوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں روایتی طور پر دو مون سون کے موسم ہوتے ہیں۔ ایک عام طور پر جون سے ستمبر تک رہتا ہے، جس میں بارشیں جنوب مغرب سے شمال مشرق کی طرف بڑھتی ہیں۔ دوسرا تقریباً اکتوبر سے دسمبر تک ہوتا ہے، جس میں بارشیں الٹی سمت میں آتی ہیں۔

لیکن فضا میں کرۂ ارض کو گرم کرنے والی گیسوں کی زیادتی کے باعث اب بارشیں اس روایتی انداز کی صرف ڈھیلی ڈھالی پیروی کرتی ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ گرم ہوا بحیرہ عرب اور بحر ہند سے زیادہ نمی جذب کر سکتی ہے، اور پھر یہ بارش ایک ہی بار میں برسنے لگتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مون سون کے دوران مسلسل بارش کے بجائے شدید سیلاب اور خشک وقفوں کا امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔

نمی، پہاڑ اور مون سون کا ملاپ ان نمی سے بھرے ہواؤں کو اوپر کی طرف اٹھنے پر مجبور کرتا ہے، جس سے اچانک گاڑھا پن پیدا ہوتا ہے اور بادل پھٹنے کے واقعات جنم لیتے ہیں۔

کیا بادل پھٹنے کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے؟

بادل پھٹنے کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ اپنے حجم، دورانیے، اچانک وقوع پذیر ہونے اور فضائی نظام کی پیچیدگی کے باعث غیر یقینی ہوتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ایک پاکستانی سرکاری اہلکار اسفندیار خان خٹک نے کہا کہ ’دنیا میں کہیں بھی ایسا پیش گوئی نظام موجود نہیں جو بادل پھٹنے کے درست وقت اور مقام کی اطلاع دے سکے۔

پاکستانی حکومت نے کہا کہ اگرچہ ضلع بونیر میں ابتدائی وارننگ سسٹم موجود تھا، جہاں بادل پھٹنے کے بعد سینکڑوں افراد کی جان گئی، لیکن بارش اتنی اچانک اور شدید تھی کہ لوگوں کو خبردار نہیں کیا جا سکا۔

کمیونٹی تنظیم ایس او ایس ٹی (سوست) جو پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ایک سرحدی گاؤں کا نام بھی ہے، کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر ممکن ہیں۔

یہ تنظیم لوگوں کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ دریا اور وادیوں کے بالکل ساتھ گھر بنانے سے گریز کریں۔ اگر موسلادھار بارش کی پیش گوئی ہو تو پہاڑی علاقوں کا سفر مؤخر کر دیں۔ ہنگامی سامان تیار رکھیں اور بارش یا رات کے وقت پہاڑی سڑکوں پر سفر کرنے سے پرہیز کریں۔

تنظیم نے شجر کاری کی تجویز بھی دی ہے تاکہ سطح پر بہاؤ کم ہو اور پانی جذب ہونے کی صلاحیت بڑھے۔ ساتھ ہی تنظیم نے دریائی کناروں اور نکاسی کے راستوں کی باقاعدہ صفائی اور چوڑا کرنے کی بھی سفارش کی۔

موسمیاتی تبدیلی کلاؤبرسٹ میں اضافے کا سبب

ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برسوں میں بادل پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوا، جزوی طور پر ماحولیاتی تبدیلی کے باعث، جب کہ ان کے ساتھ آنے والے طوفانوں سے ہونے والا نقصان بھی پہاڑی علاقوں میں بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے بڑھ گیا۔

ماحولیاتی تبدیلی نے خاص طور پر پاکستان میں بادل پھٹنے کے عوامل کو براہ راست بڑھا دیا ہے۔ درجہ حرارت میں ہر ایک درجہ سیلسیئس اضافے سے ہوا تقریباً سات فیصد زیادہ نمی جذب کر سکتی ہے جس سے مختصر وقت میں شدید بارش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

بحر ہند اور بحیرہ ہند کا پانی گرم ہونے سے زیادہ نمی فضا میں شامل ہو جاتی ہے۔ گلیشیئرز اور برف پگھلنے سے مقامی موسمی نظام بدل جاتے ہیں، جس کے باعث بارش مزید بےترتیب اور شدید ہو جاتی ہیں۔ ماحولیاتی انحطاط، مثال کے طور پر جنگلات کی کٹائی اور دلدلی علاقوں کے ختم ہونے سے زمین کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، جس سے اچانک آنے والے سیلابوں کی شدت بڑھ جاتی ہے۔

پاکستان کے شمالی علاقوں میں دیکھی جانے والی تباہی میں ماحولیاتی تبدیلی بنیادی محرک رہی ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے سابق سپیشل سکریٹری اور کلائمیٹ انیشی ایٹو پلینٹ پلس کے چیئرمین خالد خان نے کہا کہ ’بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت نے آبی چکر کو حد سے زیادہ تیز کر دیا ہے جس کے نتیجے میں بارشیں زیادہ شدید اور بےترتیب ہو گئی ہیں۔‘

’ہمارے شمالی علاقوں میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز کرتا ہے۔ فضا میں حد سے زیادہ نمی شامل کرتا ہے اور پہاڑی ڈھلوانوں کو غیر مستحکم بنا دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ ماحولیاتی تبدیلی کم ہونے والے واقعات کو زیادہ عام اور عام واقعات کو زیادہ تباہ کن بنا رہی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس