پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے حکام نے اتوار کو بتایا ہے کہ مون سون کے تین مزید سپیل ستمبر کے پہلے دس دنوں تک باقی رہیں گے اور شمالی پنجاب اور شمالی خیبر پختونخوا میں آئندہ دنوں میں مزید کلاؤڈ برسٹ کا بھی خدشہ ہے۔
اسلام آباد میں این ڈی ایم اے ہیڈ کوارٹر میں چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے مون سون بارشوں اور سیلابی صورت حال سے متعلق میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ حالیہ بارشوں کی شدت معمول سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ ’گلگت بلتستان کے بابوسر سمیت شمالی پنجاب اور شمالی خیبر پختونخوا میں مزید بارشوں کا امکان ہے جبکہ دیگر علاقوں میں بھی کلاؤڈ برسٹ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔‘
این ڈی ایم اے کے ایکسپرٹ ڈاکٹر طیب نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ اگست میں مون سون کی مزید بارشوں کے تین سلسلے پاکستان میں داخل ہوں گے، جن سے آئندہ 15 دنوں میں ملک گیر بارشوں کا امکان ہے۔
اس سے قبل محکمہ موسمیات نے بھی کہا تھا کہ آج (17 اگست) سے ملک بھر میں مون سون میں شدت متوقع ہے۔
ادارے نے کہا کہ بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے مون سون ہوائیں مسلسل ملک میں داخل ہو رہی ہیں۔’ 17 اگست سے خلیج بنگال پر موجود ہوا کا کم دباؤ مغرب کی جانب بڑھے گا، جو کہ مون سون کی سرگرمی کو مزید مضبوط کر دے گا جس سے ملک بھر میں موسلادھار بارشیں متوقع ہیں۔‘
این ڈی ایم اے کے حکام نے یہ میڈیا بریفنگ ایک ایسے وقت میں دی ہے، جب 15 اگست کو خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں شدید بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کے باعث سیلابی صورت حال کے نتیجے میں 300 سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ درجنوں لاپتہ ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں اس وقت ریسکیو اور امدادی کام جاری ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا میں آج چار سے پانچ لاشیں ملی ہیں جبکہ 40 سے 50 افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے۔ 10 ہزار سے زائد متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
این ڈی ایم اے حکام کے مطابق زمینی رابطہ منقطع ہونے والی آبادیوں سے رابطہ بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وزیراعظم کی ہدایت پر ریلیف پیکجز متاثرین تک پہنچائے جائیں گے۔
میڈیا بریفنگ کے دوران این ڈی ایم اے لاجسٹکس کے رکن بریگیڈیئر کامران نے بتایا کہ ’کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ مسائل پیش آئے، جس پر وفاقی سطح پر فوری طور پر فوج سے رابطہ کیا گیا۔ پنجاب سے دو بٹالین اور انجینیئرنگ کمپنیاں بونیر اور شانگلہ بھیجی گئیں۔‘
این ڈی ایم اے کی ایکسپرٹ زہرا نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ انڈین ڈیمز کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔ ’خانکی اور مرالہ میں پانی کی سطح ڈیڑھ لاکھ کیوسک تک جا سکتی ہے جبکہ بدین اور سجاول میں سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔ ہنزہ اور گھانچے میں لینڈ سلائیڈنگ اور فلیش فلڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔‘
این ڈی ایم اے کی جانب سے ویب سائٹ پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 15 اگست سے 16 اگست (دن ایک بجے) تک ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے مجموعی طور پر 151 افراد جان سے گئے جبکہ 137 افراد زخمی ہوئے۔
اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ 144 اموات خیبر پختونخوا میں ہوئیں، جہاں ضلع بونیر سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، وہاں 126 افراد جان سے گئے۔ گلگت بلتستان میں پانچ اموات ہوئیں جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دو افراد سیلاب کی وجہ سے جان سے گئے۔
گذشتہ روز خیبر پختونخوا کی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے کہا تھا کہ ’اکثر افراد اچانک سیلاب اور گھروں کے گرنے سے مارے گئے۔‘
صوبائی ریسکیو ایجنسی نے بتایا تھا کہ تقریباً دو ہزار اہلکار لاشوں کو ملبے سے نکالنے اور امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں، تاہم بارش ان نو متاثرہ اضلاع میں امدادی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
صوبائی حکومت نے بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام کے پہاڑی اضلاع کو آفت زدہ قرار دے رکھا ہے۔
خیبر پختونخوا ریسکیو ایجنسی کے ترجمان بلال احمد فیضی نے کہا تھا کہ ’شدید بارش، مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور سڑکوں کے بہہ جانے کی وجہ سے امداد پہنچانے میں بڑی مشکلات پیش آ رہی ہیں، خاص طور پر بھاری مشینری اور ایمبولینسیں منتقل کرنے میں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’زیادہ تر علاقوں میں سڑکیں بند ہونے کے باعث ریسکیو اہلکار پیدل دور دراز علاقوں میں آپریشن کر رہے ہیں۔
’وہ زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بہت کم لوگ اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں کیونکہ ان کے رشتہ دار یا پیارے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔‘
’پنجاب میں انتظامیہ الرٹ‘
پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے بھی اتوار سے پنجاب کے بیشتر اضلاع میں شدید مون سون بارشوں کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق: ’اتوار سے شروع ہونے والا مون سون بارشوں کا ساتواں سلسلہ 23 اگست تک جاری رہے گا، جس کے دوران بالائی پنجاب میں راولپنڈی، مری، گلیات، جہلم، چکوال اور اٹک میں شدید طوفانی بارشوں اور کلاؤڈ برسٹنگ کے خدشات ہیں۔‘
ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا کے بیان کے مطابق: ’بالائی علاقوں میں بارشوں کے باعث دریاؤں کے بہاؤ میں غیر معمولی اضافے کا خدشہ ہے۔ پنجاب کے دریاؤں و ندی نالوں میں طغیانی کا الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ دریائے سندھ راوی جہلم ستلج اور چناب کے بہاؤ میں بھی غیر معمولی اضافے کا خدشہ ہے۔‘
ڈی جی پی ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ ’صوبے بھر کی انتظامیہ کو الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز کو فیلڈ میں موجود رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں تاکہ دریاؤں ندی نالوں کے اطراف دفعہ 144 پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔‘
انہوں نے پنجاب پولیس کو بھی دریاؤں اور ندی نالوں کے اطراف پیٹرولنگ بڑھانے کی ہدایت کی ہے جبکہ واسا، ریسکیو اور ضلعی انتظامیہ سمیت تمام متعلقہ محکموں کو بھی الرٹ رہنے کا کہا ہے۔
دوسری جانب پی ڈی ایم اے نے پوٹھوہار ریجن میں ممکنہ طوفانی بارشوں اور فلیش فلڈنگ کے پیش نظر پنجاب کی انتظامیہ کو الرٹ رہنے کی ہدایات کی ہیں اور راولپنڈی اور نالہ لئی کے اطراف دفعہ 144 کا سختی سے نفاذ کروانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق نالہ لئی میں نہانے والوں کو گرفتار کرنے اور قانونی کارروائی کی ہدایات ہیں۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ نالہ لئی کے اطراف جدید الارم سسٹم فعال کر دیا گیا ہے کیونکہ راولپنڈی، مری، چکوال اور جہلم میں شدید طوفانی بارشوں اور کلاؤڈ برسٹنگ کے خدشات ہیں۔
وزیراعظم کی ہدایت پر مون سون کی شدت کے پیش نظر پہاڑی علاقوں میں سیاحت محدود کرنے کی ایڈوائزری بھی جاری کی جا چکی ہے۔
عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کریں جبکہ سیاحتی مقامات پر قانون نافذ کرنے والے ادارے پابندیوں پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائیں۔
مون سون کا موسم جنوبی ایشیا میں سالانہ بارشوں کا تقریباً تین چوتھائی حصہ فراہم کرتا ہے جو زراعت اور غذائی تحفظ کے لیے ضروری ہے، مگر یہ تباہی بھی ساتھ لاتا ہے۔
اس دوران لینڈ سلائیڈنگ اور اچانک سیلاب کے واقعات عام ہیں جبکہ یہ سلسلہ عموماً جون میں شروع ہو کر ستمبر کے آخر تک جاری رہتا ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں اور اس کی آبادی کو شدید موسمی واقعات کا سامنا بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ کرنا پڑ رہا ہے۔
26 جون سے شروع ہونے والی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے باعث این ڈی ایم اے کے مطابق اب تک 653 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ 928 افراد زخمی ہوئے ہیں۔