نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی دماغ اوسط انسانی زندگی کے دوران نشو و نما کے پانچ الگ الگ مراحل سے گزرتا ہے، اور ہمارے بڑھنے، بالغ ہونے، بوڑھے ہونے اور انحطاط کے ساتھ اس میں پیمائش کے قابل کلیدی موڑ آتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے نیورو سائنس دانوں نے صفر سے 90 سال کی عمر کے تقریباً چار ہزار افراد کے دماغوں کا سکین کیا تاکہ ان چار سنگِ میلوں کی نشاندہی کی جا سکے جو ان عصبی رابطوں (neural connections) میں بنیادی تبدیلیوں کی علامت ہیں جو ہمارے دماغ کو فعال بناتے ہیں۔
سب سے حیران کن دریافتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دورانیہ جسے سائنس دان ’لڑکپن‘ کہتے ہیں، وہ نو سال کی عمر کے لگ بھگ شروع ہوتا ہے اور 20 کی دہائی میں ختم ہونے کی بجائے ایک اور دہائی تک چلتا ہے اور 30 سال کی عمر کے اوائل تک جاری رہتا ہے۔
جریدے ’نیچر کمیونیکیشنز‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں پایا گیا کہ ہمارا دماغ مسلسل سیکھ رہا ہے اور نئی معلومات کو جذب کرتے ہوئے خود کو ڈھال رہا ہے۔ تاہم یہ نشوونما اور استحکام کا کوئی ہموار سفر نہیں ہے، بلکہ اس میں سرگرمیوں کے طوفان بھی آتے ہیں، خاص طور پر زندگی کے پہلے حصے میں۔
ٹیم نے جن پانچ ’بڑے ادوار‘ کی نشاندہی کی ہے وہ یہ ہیں:
- بچپن: پیدائش سے نو سال کی عمر تک
- لڑکپن: نو سے 32 سال تک
- بلوغت: 32 سے 66 سال تک
- بڑھاپا: 66 سے 83 سال تک
- ضعیف العمری: 83 سال سے آگے
ان الگ الگ ادوار کا پتہ ایم آر آئی ڈفیوژن سکینز سے حاصل کردہ ڈیٹا سیٹس کا استعمال کرتے ہوئے لگایا گیا، جو دماغ کے ٹشوز میں پانی کے مالیکیولز کی حرکت کو ٹریک کر کے دماغ میں عصبی رابطوں کا نقشہ بناتے ہیں۔
گیٹس کیمبرج سکالر اور تحقیق کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر الیکسا موسلی نے کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ دماغ کی وائرنگ ہماری نشوونما کے لیے بہت اہم ہے، لیکن ہمارے پاس اس کی بڑی تصویر موجود نہیں تھی کہ یہ ہماری زندگی بھر کیسے بدلتی ہے۔‘
’یہ ادوار اس حوالے سے اہم سیاق و سباق فراہم کرتے ہیں کہ ہمارا دماغ ہماری زندگی کے مختلف مراحل میں کس چیز میں بہترین ہو سکتا ہے، یا زیادہ کمزور ہو سکتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کچھ دماغ زندگی کے اہم موڑ پر مختلف طریقے سے کیوں نشوونما پاتے ہیں، چاہے وہ بچپن میں سیکھنے کی مشکلات ہوں یا بعد کے سالوں میں ڈیمنشیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بچپن
ٹیم کی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ پہلے دور کے دوران، جو پیدائش سے لے کر بچپن اور تقریباً نو سال کی عمر تک ہے، ہمارے دماغ کی تعریف ’نیٹ ورک کے استحکام‘ سے ہوتی ہے۔
اس عمل کے دوران ’سنیپس‘ (synapses) یعنی نیورانز کے درمیان رابطوں کی بہتات، جو بچے کے دماغ میں ضرورت سے زیادہ پیدا ہوتے ہیں، کم ہو جاتی ہے اور صرف زیادہ فعال رابطے ہی باقی رہتے ہیں۔
پہلے دور کے اختتام تک، دماغی صلاحیت میں ایک نمایاں تبدیلی آتی ہے، لیکن اس کے ساتھ کمزوری بھی آتی ہے کیونکہ ٹیم کے مطابق اس کے بعد ذہنی صحت کے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
لڑکپن
دماغ کے سکین سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکپن کے دوران دماغ کے مواصلاتی نیٹ ورک تیزی سے بہتر ہوتے ہیں۔
یہ دور دماغ کے مخصوص حصوں اور پورے دماغ میں تیز اور ہموار مواصلات کے قیام سے عبارت ہے — ایک ایسی تبدیلی جو دماغی صلاحیتوں (cognitive skills) کو بہت زیادہ مضبوط کرنے کا باعث بنتی ہے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ عمل عام طور پر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ہم 30 کی دہائی کے اوائل میں نہیں پہنچ جاتے۔
جوانی
تقریباً 32 سال کی عمر سے سب سے طویل دور یعنی ’جوانی‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ دماغ کا ڈھانچہ پچھلے مراحل کے مقابلے میں مستحکم ہو جاتا ہے اور اگلے 30 سالوں تک کوئی بڑا موڑ نہیں آتا۔
تحقیقی ٹیم نے کہا کہ یہ دیگر مطالعات کی بنیاد پر ’ذہانت اور شخصیت میں ٹھہراؤ‘ (plateau) سے مطابقت رکھتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی پایا کہ اس دور میں ’علیحدگی‘ (segregation) زیادہ نمایاں ہوتی ہے، کیونکہ دماغ کے حصے آہستہ آہستہ کم جڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور زیادہ خانوں میں بٹ جاتے ہیں۔
بڑھاپے کی ابتدا
ڈاکٹر موسلی نے کہا: ’ڈیٹا بتاتا ہے کہ دماغی نیٹ ورکس کی بتدریج تنظیم نو کا عمل 60 کی دہائی کے وسط میں عروج پر ہوتا ہے۔ اس کا تعلق غالباً عمر رسیدہ ہونے سے ہے، جس میں ’وائٹ میٹر‘ کے انحطاط کے ساتھ کنیکٹیویٹی مزید کم ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ وہ دور بھی ہے ’جب لوگوں کو صحت کے مختلف مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو دماغ کو متاثر کر سکتے ہیں، جیسے کہ ہائی بلڈ پریشر۔‘
ضعیف العمری (Late Ageing)
دماغی ساخت کا آخری دور 83 سال کی عمر کے لگ بھگ شروع ہوتا ہے۔
ٹیم نے کہا کہ اس کی نمایاں خصوصیت ’گلوبل سے لوکل‘ کی طرف منتقلی ہے، کیونکہ دماغ کے مختلف حصوں کے درمیان رابطہ مزید کم ہو جاتا ہے۔ اس دوران لوگ تیزی سے بعض مخصوص اور جانے پہچانے اعصابی راستوں اور خطوں پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔
کیمبرج میں نیورو انفارمیٹکس کے پروفیسر ڈنکن ایسٹل نے کہا کہ ٹیم کی یہ تحقیق نشوونما کے مختلف مراحل پر دماغ کی مختلف کمزوریوں کو سمجھنے اور خطرات کو کم کرنے اور مخصوص حالات کے علاج میں مدد کرے گی۔
انہوں نے کہا: ’پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہم میں سے بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری زندگیاں مختلف مراحل سے عبارت رہی ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ دماغ بھی ان ادوار سے گزرتے ہیں۔‘
’بہت سے اعصابی نشوونما، ذہنی صحت اور اعصابی حالات کا تعلق اس بات سے ہے کہ دماغ کی وائرنگ کیسے ہوئی ہے۔ درحقیقت، دماغ کی وائرنگ میں فرق توجہ، زبان، یادداشت اور دیگر بہت سے رویوں میں مشکلات کی پیش گوئی کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ سمجھنا کہ دماغ کا ساختی سفر مستقل پیش رفت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ چند اہم موڑ ہیں، ہمیں یہ پہچاننے میں مدد دے گا کہ اس کی وائرنگ کب اور کیسے خلل کا شکار ہو سکتی ہے۔‘
© The Independent