کیا کوئی وجہ موجود ہے کہ خلائی مخلوق نے ہمیں نظرانداز کرنا شروع کر دیا؟ کیا وہ کوشش کرتے کرتے تھک گئے ہیں؟ سائنس دانوں کی طرف سے پیش کی گئی یہ تازہ ترین تھیوری ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ عام خیال کے برعکس خلائی مخلوق بھی ہم جیسے ہی آلات استعمال کر رہی ہے اور اسی لیے وہ انسانوں کا پتہ نہیں لگا سکتی۔
’ریڈیکل منڈینٹی‘ کہلانے والی ایک نئی تحقیق اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ کہکشاں میں ٹیکنالوجی استعمال کرنے والی غیر زمینی تہذیبوں (ای ٹی سیز) کے شواہد کی کمی کیوں ہے؟ جسے ’فرمی پیراڈوکس‘ بھی کہا جاتا ہے۔
فرمی پیراڈوکس کی وضاحت میں کئی نظریات پیش کیے جا چکے ہیں، جیسے انسانیت کا کسی آسمانی چڑیا گھر میں قید ہونا یا خلائی مخلوق کا ایسی صورتوں میں منتقل ہو جانا، جنہیں پہچانا نہیں جا سکتا۔
ڈریک مساوات کے مطابق، کائنات میں ایسی بہت سی تہذیبیں ہونی چاہییں جو ہمارے قریب ہوں اور ہم سے رابطہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ یہ مساوات ذہین زندگی سے رابطے کے امکان کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ ایسا امکان کافی زیادہ ہونا چاہیے۔
لیکن ناسا کے گوڈرڈ سپیس فلائٹ سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر رابن کوربٹ کا کہنا ہے کہ کہکشاں میں تہذیبوں کی تعداد محدود ہے اور ’ان میں سے کسی نے بھی اتنی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی حاصل نہیں کی کہ بڑے پیمانے پر خلائی انجینیئرنگ کر سکے یا پھر ان میں ایسا کرنے کی خواہش ہی نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ غیر زمینی تہذیبیں دیگر مخلوقات سے رابطے کے لیے طاقتور سگنلز یا تحقیقات بھیج سکتی ہیں، لیکن اس کے لیے بے پناہ توانائی درکار ہوگی اور جواب موصول ہونے میں کروڑوں یا حتیٰ کہ اربوں سال لگ سکتے ہیں۔ اس صورت میں ایسی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی ترغیب بہت کم رہ جاتی ہے یعنی ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے ہم سے رابطہ کرنے کی کوششیں ترک کر دی ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کہکشاں میں غیر زمینی تہذیبوں کی تعداد خاطر خواہ ہے تو زمین ’شاید ان کے لیے دیکھنے یا آنے کی کوئی خاص دلچسپ جگہ نہیں ہوگی۔‘
سینیئر محقق سائنس دان نے مزید کہا کہ عمومیت کے اصول کے مطابق خلائی مخلوق کے حملے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
اپنی تحقیق ’ایک کم خوفناک کائنات؟ فرمی پیراڈوکس کے عام اور سادہ ہونے کی وضاحت‘ میں ڈاکٹر کوربیٹ لکھتے ہیں: ’یہ نکتہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ کوئی بھی غیر زمینی تہذیب، چاہے روبوٹ کے ذریعے ہی تحقیق ہی کیوں نہ کرے، کہکشاں کے بڑے حصے کو نوآبادی نہیں بنائے گی اور نہ ہی طویل عرصے تک چلنے والے طاقتور سگنلز موجود ہوں گے۔‘
سائنس دان کا کہنا تھا کہ غیر زمینی تہذیبیں ایسے طاقتور اور طویل مدت کے سگنلز بھیج سکتی ہیں جو دوسرے سیاروں سے دکھائی دیں اور اس طرح وہ اپنی موجودگی ظاہر کر سکیں۔
تاہم، ایسا اس لیے نہیں ہوا کیوں کہ غیر زمینی تہذیبیں ابھی ’سپر سائنس‘ کی اُس سطح کے قریب بھی نہیں پہنچیں جو انہیں قابلِ مشاہدہ بنا سکے۔ یہی ہے ریڈیکل منڈینٹی کا اصول۔
مگر اُن لوگوں کے لیے جو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم کائنات میں اکیلے نہیں، اب بھی ایک معمولی سی امید باقی ہے۔ ڈاکٹر کوربیٹ کے مطابق، اس بات کا ’معقول امکان‘ ہے کہ ہم کسی غیر زمینی تہذیب سے رابطہ قائم کر سکیں، لیکن ایسا دریافت ہونا ’ہمیں کچھ حد تک مایوس بھی کر سکتا ہے۔‘
اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رابطے سے ہماری ٹیکنالوجی میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوگی، اور یہ ظاہر کرے گا کہ ’زندگی مجموعی طور پر ایک عام شے ہے۔‘
انہوں نے برطانوی اخبار دی گارڈین کو بتایا: ’خیال یہ ہے کہ وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں، مگر بہت زیادہ نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کے پاس آئی فون 42 ہو اور دوسرے کے پاس آئی فون 17۔
’یہ بات زیادہ ممکن اور قدرتی لگتی ہے، کیوں کہ یہ کسی غیر معمولی یا انتہا کو بیان نہیں کرتی۔‘
’ان کے پاس روشنی کی رفتار سے تیز رفتار ٹیکنالوجی نہیں، نہ ہی وہ ڈارک انرجی، ڈارک میٹر یا بلیک ہول پر مبنی مشینیں استعمال کر رہے ہیں۔ وہ طبیعیات کے نئے قوانین کو قابو میں نہیں لا رہے۔‘
ڈاکٹر کوربٹ یونیورسٹی آف میری لینڈ، بالٹی مور کاؤنٹی میں سینیئر ریسرچ سائنس دان ہیں۔
© The Independent