کراچی: گٹر میں گرنے والے بچے کی تلاش ’آلات کی عدم موجودگی‘ کے باعث معطل

بچے ابراہیم کی والدہ کہا کہ ’ہم رات سے یہیں ہیں۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت کام جاری رکھا، یہاں تک کہ مشینری کا خرچہ بھی ہم نے اپنی جیب سے دیا۔ ہمیں کسی سے کچھ نہیں چاہیے، بس ہمارا بچہ ہمیں واپس لا دیا جائے۔‘

ریسکیو 1122 کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انڈر واٹر ڈائی گرام موجود نہیں تو ہم جگہ جگہ کھدائی بھی نہیں کر سکتے (سکرین گریب/ ویڈیو اسلم خان)

ریسکیو 1122 کے ترجمان نے کہا ہے کہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں اتوار کی رات گٹر میں گرنے والے تین سالہ بچے کی تلاش کا کام زیر آب ڈائیونگ آلات کی عدم موجودگی کے باعث روک دیا گیا ہے۔

کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں نیپا چورنگی پر اتوار کی رات خریداری کے لیے آئی فیملی کا تین سالہ بچہ نبیل ایک ڈپارٹمنٹل سٹور کے باہر رات گیارہ بجے مین ہول (گٹر) میں گر گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فوٹیج میں بچے کی والدہ کو شدید کرب اور بےچینی کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان حسان خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ساڑھے گیارہ گھنٹے  بلا تعطل ریسکیو آپریشن جاری رکھنے کے بعد اسے عارضی طور پر روک دیا گیا کیونکہ جب تک متعلقہ ادارے  جائے وقوعہ پر نہیں پہنچتے آپریشن دوبارہ شروع نہیں کیا جا سکتا۔

’اتنے سنجیدہ واقعے کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کر رہا۔ کوئی انڈر واٹر ڈائی گرام موجود نہیں تو ہم جگہ جگہ کھدائی بھی نہیں کر سکتے، تاہم ریسکیو 1122 عملہ ابھی جائے وقوعہ پر موجود ہے۔ بچے کی دوبارہ تلاش شروع کریں گے۔‘

انتظامیہ کی غفلت پر شدید ردعمل

واقعے کے بعد مشتعل شہریوں نے نیپا چورنگی پر احتجاج کرتے ہوئے ٹائر جلا کر سڑک بلاک کر دی۔

بچے ابراہیم کی والدہ عائشہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ’رات سے اب تک کوئی کام نہیں ہو رہا۔ اتنی دیر گزر گئی ہے، میرا بچہ کہاں ہو گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم رات گئے سے یہیں موجود ہیں۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت کام جاری رکھا اور یہاں تک کہ مشینری کا خرچہ بھی ہم نے اپنی جیب سے دیا۔ ہمیں کسی سے کچھ نہیں چاہیے، بس ہمارا بچہ ہمیں واپس لا دیا جائے۔‘

بچے کی والدہ کا کہنا تھا کہ تاحال کسی حکومتی نمائندے نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ نہ میئر کراچی، نہ ٹاؤن انتظامیہ اور نہ ہی سندھ حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ کیا گیا۔

بچے کے والد نبیل نے میڈیا گفتگو میں واقعہ کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا کہ ’ڈیپارٹمنٹل سٹور میں شاپنگ کرنے آیا تھا، شاپنگ کر کے نکلے تو بیٹا ہاتھ چھڑا کر بھاگا، موٹر سائیکل مین ہول کے قریب پارک تھی، بیٹا آنکھوں کے سامنے گٹرمیں گرا، مین ہول پرڈھکن نہیں تھا۔‘

’فکس اٹ‘ مہم کے بانی عالمگیر خان نے بھی جائے وقوعہ پر پہنچ کر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انتظامیہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ شہر ہے یا موئنجو دڑو ہے؟‘

انہوں نے متعلقہ اداروں کی جانب سے جائے حادثہ پر مشینری نہ لانے پر شدید تنقید کی۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان حسان خان نے بتایا کہ ’رواں سال کراچی میں گٹر میں گرنے والوں کی تعداد 22 ہو چکی ہے، جس سے شہر کی خستہ حال بنیادی ڈھانچے کی سنگینی واضح ہوتی ہے۔‘

ڈپٹی میئر کراچی سلمان مراد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ریسکیو آپریشن جاری ہے اور اس دوران غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بنیادی طور پر یہ ٹاؤن انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے معاملات پر نظر رکھے، تاہم یہ وقت تنقید کا نہیں، بلکہ سنجیدگی اور یکجہتی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’واٹر بورڈ کے مطابق مین ہول کی گہرائی بہت زیادہ ہے، اور رات سے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ تمام ریسکیو اداروں کو الرٹ کر دیا گیا ہے اور بچے کو جلد از جلد تلاش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان