سائنس دانوں نے خلائی مخلوق کی تلاش کے لیے آسان ٹیسٹ تیار کر لیا

یہ دریافت مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے 90 فیصد درستگی کے ساتھ اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آیا (خلا سے لایا گیا) کوئی نمونہ حیاتیاتی ہے یا نہیں۔

میکسیکو کی کانگریس میں  رواں سال ستمبر میں مبینہ غیر انسانی ڈھانچے میکسیکو کے سیاست دانوں کو دکھایے گئے تھے (اے ایف پی)

سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کی تلاش کے لیے ایک آسان ٹیسٹ تیار کر لیا ہے۔

یہ پیش رفت ایسٹرو بائیولوجی کی ’انتہائی مطلوب لیکن مشکل‘ تلاش میں معاون ہے یعنی یہ ایک قابل اعتماد ٹیسٹ ہو گا جو اس بات کا تعین کرے گا کہ دوسرے سیاروں پر زندگی موجود ہے یا پہلے کبھی موجود تھی۔

یہ دریافت مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے 90 فیصد درستگی کے ساتھ اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آیا (خلا سے لایا گیا) کوئی نمونہ حیاتیاتی ہے یا نہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ اسے موجودہ نمونوں پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے سے جمع کیے ہوئے ہمارے نمونے بتا سکتے ہیں کہ آیا مریخ پر زندگی ہے یا نہیں۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ ان کے ٹیسٹ کا استعمال مریخ پر ناسا کے بھیجے گئے کیوروسٹی روور کے سیمپل اینالسز ایٹ مارس (ایس اے ایم) پر نصب آلے کے ذریعے پہلے سے جمع شدہ نمونوں پر کیا جا سکتا ہے۔ روور میں موجود آلے کی جانب سے نمونوں کے جمع کیے گئے ڈیٹا کو اس ٹیسٹ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ نتائج زمین پر پائے جانے والے پراسرار اور قدیم چٹانوں کی تاریخ کا انکشاف کرتے ہوئے ہمیں اپنے سیارے کے بارے میں بھی مزید جاننے میں مدد کرسکتے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس کی ارتھ اینڈ پلینٹس لیبارٹری سے وابستہ اس تحقیق کے سربراہ جم کلیوز کے بقول: ’زمین سے باہر زندگی کی تلاش جدید سائنس میں سب سے زیادہ پیچیدہ کوششوں میں سے ایک ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس نئی تحقیق کے بہت سے پوشیدہ معنی ہیں لیکن اس سے تین بڑے نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں: پہلا، کچھ گہرائی میں، بائیو کیمسٹری ایبائیوٹک آرگانیک کمسٹری سے مختلف ہے۔ دوسرا، ہم مریخ اور قدیم زمین کے نمونوں کو دیکھ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ آیا وہ کبھی زندہ تھے یا نہیں۔ اور تیسرا، یہ امکان ہے کہ یہ نیا طریقہ متبادل حیاتیاتی سفیئرز کو زمین سے الگ کرسکتا ہے، جس کے مستقبل کے ایسٹروبائیولوجی مشنز کے لیے اہم مضمرات ہوں گے۔‘

یہ تکنیک زندگی کی نشاندہی کرنے والے مخصوص مالیکیولز یا مرکبات تلاش نہیں کرتی،، جیسا کہ پہلے ہوتا ہے۔ اس کے بجائے، یہ مختلف قسم کے تجزیے استعمال کرتے ہوئے نمونوں کے مالیکیولر پیٹرن میں چھوٹے فرق کی تلاش کرتی ہے۔

اس کو بنانے کے لیے 134 معلوم نمونوں کے بارے میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس سسٹم ڈیٹا سے بنایا گیا، جس میں یہ معلومات شامل تھیں کہ آیا وہ بائیوٹک ہیں یا ابائیوٹک۔ اس کی جانچ کرنے کے لیے اسے نئے نمونے دیے گئے– جن میں زندہ چیزوں، قدیم زندگی کی باقیات اور دیگر حیاتیاتی نمونے شامل تھے جو زندگی کی طرف اشارہ نہیں کرتے تھے، جیسے خالص کیمیکل – اور 90 فیصد درستگی کے ساتھ ان کی شناخت کی۔

اس سسٹم نے ایک اور قسم کے نمونے کی پیش گوئی بھی شروع کردی، جس میں بائیوٹک کو ’زندہ‘ اور ’فوسل‘ میں تقسیم کیا گیا۔

مثال کے طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تازہ کٹے ہوئے پتے اور بہت پہلے مرنے والی کسی اور چیز کے درمیان فرق بتا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس دانوں کو امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اعداد و شمار میں موجود دیگر اشاروں میں فرق کرنے کے قابل ہو جائے گا، جیسا کہ فوٹو سینتھیسس کی علامات یا ایسے خلیات جن میں نیوکلیس ہوتا ہے۔

پچھلی تحقیق میں جدوجہد کرنی پڑی کیونکہ نامیاتی مالیکیولز وقت کے ساتھ خراب ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے محققین کا کہنا ہے کہ یہ نیا طریقہ اس وقت بھی کام کرتا ہے جب نمونے خراب اور نمایاں طور پر تبدیل ہو چکے ہوں۔

تحقیق کے رہنماؤں میں سے ایک، کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس سے وابستہ رابرٹ ہیزن کے بقول، ’یہ معمول کا تجزیاتی طریقہ ماورائے ارض زندگی کی تلاش میں انقلاب برپا کرنے اور زمین پر ابتدائی زندگی کی ابتدا اور کیمسٹری دونوں کے بارے میں ہمارا علم بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے روبوٹک خلائی جہاز، لینڈرز اور روورز پر سمارٹ سینسرز کے استعمال کا راستہ کھل جائے گا تاکہ نمونے زمین پر واپس بھیجنے سے قبل ہی زندگی کے آثار تلاش کیے جا سکیں۔‘

یہ نتائج زندگی کے اسرار کو حل کرنے میں بھی مدد کرسکتے ہیں۔ زمین پر موجود بہت سی قدیم چٹانیں کے متعلق بھی بحث جاری ہے کہ آیا ان میں زندگی کے سب سے قدیم فوسل جرثومے موجود ہیں، جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ ان میں کوئی زندگی نہیں ہے- اور محققین پہلے ہی آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر جگہوں سے ان چٹانوں کے بارے میں اعداد و شمار کو آلہ میں ڈال رہے ہیں۔

ہیزن کا کہنا تھا کہ ’اب ہم ان چٹانوں میں موجود نامیاتی مادّے کی حیاتیاتی نوعیت کے بارے میں دیرینہ سوالات کو حل کرنے کے لیے اپنے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔‘

اس تحقیق کی وضاحت کرنے والا ایک مقالہ، ‘A robust, agnostic biosignature based on machine learning’, ‘ کے عنوان سے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نامی جریدے میں شائع ہوا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس