سندھ میں ایچ آئی وی سے متاثر ٹرانس جینڈر مریض کہاں جائیں؟

صوبہ سندھ میں اس وقت 780 رجسٹرڈ ٹرانس جینڈر ایچ آئی وی ایڈز مریض ہیں اور اب تک 55 ٹرانس جینڈر افراد اس بیماری کے باعث جان سے جا چکے ہیں۔

کراچی میں نومبر 2025 کو ایچ آئی وی میں مبتلا ٹرانس جینڈر افراد (شیما صدیقی)

آج یکم دسمبر کو دنیا بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کا مقصد اس مرض اور اس کے مریضوں کے علاج کے بارے میں آگاہی پہنچانا ہے۔ اس بیماری کا نام آتے ہی ذہن میں طرح طرح کے منفی تصورات ابھرتے ہیں۔ جب یہی مرض مخنث یا ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے افراد کو لاحق ہو جائے تو صورت حال اور بھی پیچیدہ ہو جاتی ہے۔

ہم نے ایچ آئی وی اور ایڈز کے عالمی دن کے موقعے پر سندھ میں موجود مخنث کمیونٹی سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس بیماری کے ساتھ اپنی زندگی کیسے گزار رہے ہیں۔ ان تمام مریضوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

سندھ کمیونی کیبل ڈیزیز کنٹرول (ایچ آئی وی ایڈز) کے مارچ 2024 کے ڈیٹا کے مطابق صوبے میں اس وقت 780 رجسٹرڈ مخنث ایچ آئی وی ایڈز مریض ہیں اور اب تک 55 مخنث افراد اس بیماری کے باعث جان سے جا چکے ہیں۔ ہم نے اسی پروگرام کے تحت رجسٹرڈ مخنث مریضوں، کمیونٹی فیلڈ ورکرز اور ڈاکٹرز سے بات کی ہے تاکہ نہ صرف ایچ آئی وی ایڈز کے ہر مریض بلکہ پورا معاشرہ سمجھے کہ احتیاط اور بروقت علاج ہی واحد راستہ ہے۔

فضیلہ کی داستان: ’ہم بھی انسان ہیں، ہمارے بھی خرچے ہیں‘

ہالہ سے تعلق رکھنے والی 50 سالہ فضیلہ کی کہانی کچھ ان کی اور کچھ ہماری زبانی۔

فضیلہ کو دو سال پہلے معلوم ہوا کہ انہیں ایچ آئی وی ہے۔ انہوں نے اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ اب وہ لیاری کے ایک کمپاؤنڈ میں رہتی ہیں اور گذشتہ ایک سال سے باقاعدگی سے دوا لے رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ شروع میں بہت کمزوری تھی، مانگنے کے لیے باہر جاتیں تو چکر آ جاتے اور کبھی الٹی ہو جاتی۔ کوئی کام نہیں ہو پاتا تھا، جسم میں درد رہتا اور تین چار ماہ تک بخار بھی رہا۔ صحت مزید خراب ہوئی تو برِج کی کمیونٹی ورکر رقیہ نے ان کے خون کے ٹیسٹ کرائے۔

فضیلہ کہتی ہیں، ’ہم بھی انسان ہیں، ہمارے بھی ہزار طرح کے خرچے ہیں، کام تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ کمرے کا کرایہ پانچ سو ہے، پھر روز کے خرچ کے لیے الگ پیسے چاہیے۔ ایک کمرے میں ہمارے ساتھ کئی مخنث افراد رہتے ہیں لیکن کھانا سب کا اپنا اپنا ہے، البتہ پانی اور بجلی کرائے میں شامل ہے۔‘

ان کا خاندان ہالہ میں ہے اور وہاں آنا جانا رہتا ہے لیکن انہیں بیماری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ فضیلہ پہلے پارٹیوں اور فنکشنز میں ناچ گانا کر کے کماتی تھیں لیکن اب صرف مانگ کر گزارا کرتی ہیں۔ ’ہزار بارہ سو مل جاتے ہیں۔ پورا ہفتہ کام نہیں ہوتا، طبعیت ساتھ دے تو ہفتے میں تین چار دن بھیک مانگ کر کما لیتی ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ حکومت کے تحت چلنے والے ایچ آئی وی ایڈز یونٹس

جناح ہسپتال میں ایچ آئی وی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر ساجد تھاورانی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت سندھ میں 23 ایچ آئی وی سینٹر کام کر رہے ہیں، جہاں دوا اور علاج سب مفت فراہم کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ بیماری ساتھ رہنے، کپڑے شیئر کرنے یا ایک ساتھ کھانا کھانے سے نہیں لگتی۔ کونسلنگ کے دوران ہم مریضوں کے دل سے یہ خوف نکالتے ہیں، کیونکہ ایڈز کا نام سنتے ہی لوگوں کے ذہن میں یقینی موت کا تصور آتا ہے۔ اسی لیے آگاہی بہت ضروری ہے۔‘

ایچ آئی وی ایڈز: دوا چھوڑ دینا صحت کو مزید خراب کر دیتا ہے

آگرہ تاج کالونی کی 40 سالہ بسمہ کو گھر چھوڑے 15 سال ہو چکے ہیں۔ پانچویں جماعت تک پڑھنے والی بسمہ اب خاندان سے نہیں ملتیں۔ 2020 میں ان میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی اور اب وہ باقاعدگی سے ادویات لیتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ شروع میں، کئی دوسرے مخنث مریضوں کی طرح، انہوں نے بھی الٹی اور دست کی وجہ سے دوا لینا چھوڑ دیا۔ ’طبعیت اتنی خراب رہتی کہ کوئی کام نہیں ہو پاتا، اس لیے دوا چھوڑ دی تھی،‘ بسمہ کہتی ہیں۔ ’پھر کمیونٹی کونسلر نے سمجھایا کہ دوا ضروری اور لازمی ہے، کچھ سپلیمنٹس بھی دیے۔ کچھ عرصہ لگا لیکن آہستہ آہستہ طبعیت بہتر ہونے لگی۔‘

بسمہ کے مطابق، ’ابھی چند روز پہلے ہی میں نے اپنا وائرل لوڈ ٹیسٹ کرایا ہے۔ میں رات کو کھانا کھانے کے بعد دوا لے لیتی ہوں اور کنڈوم بھی استعمال کرتی ہوں۔‘

احتیاط سے ہی بچاؤ ممکن ہے

روتھ فاؤ سول ہسپتال میں 2020 میں قائم ہونے والے ایچ آئی وی ایڈز یونٹ کی سربراہ ڈاکٹر سمیرہ حیدر کا کہنا ہے کہ صرف مخنث ہی نہیں، عام آبادی کو بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ ایچ آئی وی دراصل ایک وائرس ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ ہو تو یہ ایڈز کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں بلکہ الگ مرحلے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ استعمال شدہ سرنج یا آلات، ایسا خون جس کی مکمل جانچ نہ کی گئی ہو، یا غیر محفوظ جنسی تعلق کے ذریعے یہ وائرس آگے منتقل ہو سکتا ہے، چاہے تعلق مرد کے مرد سے ہو یا مرد کے ٹرانس سے۔

ڈاکٹر سمیرہ کے مطابق، ’اس بیماری کی علامات میں وزن کا تیزی سے گرنا، نزلہ زکام، ایسا بخار جو ٹھیک نہ ہو، بار بار ڈائیریا، منہ کے زخم اور ٹی بی شامل ہیں۔ ان مریضوں میں سب سے پہلے یہی انفیکشن حملہ آور ہوتے ہیں، اسی لیے ٹی بی کے مریضوں میں بھی ایچ آئی وی ٹیسٹ لازمی کیا جاتا ہے۔ اگر وائرس ابتدائی مرحلے میں پکڑ میں نہ آئے تو آٹھ سے دس سال تک بالکل خاموش قاتل کی طرح رہتا ہے اور مریض بظاہر ایک نارمل انسان کی طرح زندگی گزار رہا ہوتا ہے، مگر اس دوران جتنے لوگوں سے وہ جنسی تعلق میں آئے گا، سب کو اس مرض کا خطرہ ہو گا۔‘

سماجی تنظیموں سے رابطہ سب سے اہم

دیگر سماجی تنظیموں کی طرح برِج بھی ایک ادارہ ہے جو ٹرانس جینڈر یا مخنث افراد میں ایچ آئی وی ایڈز کے حوالے سے آگاہی اور رابطے کا کام کرتا ہے۔ اس کی آؤٹ ریچ فیلڈ ورکر صائمہ جی سندھ پولیس اور الیکشن کمیشن کی فوکل پرسن بھی ہیں۔

صائمہ بتاتی ہیں کہ برِج نے مخنث کمیونٹی سے جڑنے اور مسلسل رابطے کے لیے کراچی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے، ایک سینٹر ناظم آباد میں ہے اور دوسرا نرسری میں۔ ’ہم عباسی شہید، روتھ فاو، لیاری جنرل ہسپتال اور انڈس ہسپتال کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ 16 آؤٹ ریچ فیلڈ ورکر ہیں،‘ وہ کہتی ہیں۔

ان کے مطابق، ’برِج کا پہلا مقصد مخنث افراد کو ٹیسٹ کی طرف لانا اور انہیں احتیاط کے ذریعے صحت مند زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔ دوسرا مرحلہ مریضوں کی شناخت کے بعد ان سے مسلسل رابطہ رکھنا، انہیں دواؤں، ڈاکٹر اور سینٹر تک پہنچانا اور ادویات باقاعدگی سے کھانے پر زور دینا ہے، کیونکہ 80 فیصد مریض سائیڈ افیکٹس کے باعث دوا چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے کمیونٹی تک بار بار پہنچنا ضروری ہے۔‘

صائمہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’ان کی دوا چلتی رہے تاکہ یہ خود بھی چلتے رہیں۔ کونسلنگ اس لیے ضروری ہے کہ وہ سمجھ سکیں علاج کتنا ضروری ہے۔ تعلیم کی کمی ہماری کمیونٹی کا بڑا چیلنج ہے، پھر ہم پڑھ بھی لیں تو بھی لوگوں کا رویہ فوراً نہیں بدلتا۔‘

ایچ آئی وی کے ساتھ صحت مند زندگی

ڈاکٹر سمیرہ کہتی ہیں کہ مخنث افراد بھی ’پیپل لیونگ ود ایچ آئی وی‘ کی طرح اپنی طرز زندگی کو منظم کر کے اپنا بچاو کر سکتے ہیں۔ ’ہم مریضوں کو سمجھاتے ہیں کہ جس طرح شوگر اور بلڈ پریشر کی دوائیں روزانہ کی بنیاد پر لینی پڑتی ہیں، اسی طرح ایچ آئی وی کی دوا بھی روز اور وقت پر لینا ضروری ہے۔ اس سے مریض بالکل صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں،‘ وہ وضاحت کرتی ہیں۔

ان کے مطابق پہلے یہ کمیونٹی ڈاکٹرز تک نہیں پہنچتی تھی، لیکن اب حکومت نے ایسے کلینک بنا دیے ہیں جہاں ڈاکٹر اور اسکریننگ کیمپ خود ان تک پہنچتے ہیں۔ ’ہر تیسرے مہینے چیک اپ کے لیے آنا لازمی ہے۔ وائرل کاؤنٹنگ سے ہی پتا چلتا ہے کہ دوا کتنا اثر کر رہی ہے۔ پہلی پندرہ دنوں میں ہم انہیں دو تین بار ہسپتال بلاتے ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ دوا سوٹ کر رہی ہے یا نہیں، کوئی سائیڈ افیکٹ تو نہیں، اور یہ کہ مریض دوا واقعی لے بھی رہا ہے یا مزید کونسلنگ کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر سمیرہ بتاتی ہیں کہ ’اس کے بعد دو ماہ بعد آغا خان ہسپتال سے وائرل لوڈ ٹیسٹ کرایا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ دوا وائرس پر اثر انداز ہو رہی ہے یا نہیں۔ پچاس ہزار روپے مالیت کا یہ ٹیسٹ مکمل طور پر مفت ہے۔ مکمل جانچ پڑتال کے بعد اگر وزن اور صحت ٹھیک ہو تو تین ماہ کی دوا ایک ساتھ دے دی جاتی ہے۔ اگر مریض کو کہیں باہر جانا ہو تو بھی دوا فراہم کر دی جاتی ہے، لیکن رابطے میں رہنا ضروری ہے، اس لیے مریضوں کو ہسپتال آ کر ٹیسٹ ضرور کرانا چاہیے۔‘

این جی اوز کا اہم کردار

ڈاکٹر ساجد اور ڈاکٹر سمیرہ کے مطابق مخنث افراد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس نہ مستقل گھر ہوتا ہے نہ پتہ۔ ’وہ آج کراچی میں ہیں تو کل کسی اور شہر میں، کبھی ایک صوبے میں اور کبھی دوسرے میں چلے جاتے ہیں، اس وجہ سے اکثر اپنی دوائیں نہیں لے پاتے،‘ وہ بتاتے ہیں۔

ایچ آئی وی کے ہیلتھ کونسلر علی گذشتہ گیارہ برس سے جناح ہسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’ہمارے پاس جب مریض آتے ہیں تو ان کے خاندان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، لیکن ٹرانس کمیونٹی میں خاندان دراصل گرو اور چیلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے ان گھروں سے بھی لوگ علاج سے بھاگتے تھے، اب صورت حال بہتر ہوئی ہے اور این جی اوز کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔‘

ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ جیا اور برِج جیسی تنظیمیں بھی سمجھتی ہیں کہ وہ براہِ راست کمیونٹی سے جڑی ہوئی ہیں، اس لیے ان کا نیٹ ورک بڑھانا، مریضوں کو مسلسل ادویات پہنچانا اور ان کی بات سننا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ وہ علاج کے لیے قائل ہو سکیں۔ صائمہ کے مطابق، ’ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے، ہم مریضوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اگر وہ کسی دوسرے شہر چلے جائیں تو ہم وہاں موجود سینٹر سے ان کا رابطہ کرا دیتے ہیں، مثال کے طور پر حیدرآباد کے سینٹر سے دوا لے سکتے ہیں۔ بعض اوقات ایک ٹرانس اپنی دوا لینے آتا ہے تو اپنے دو دوستوں کی دوا بھی ساتھ لے جاتا ہے۔‘

اچھی بات یہ ہے کہ کمیونٹی آپس میں بہت جڑی ہوئی ہے، ہمارے پاس رجسٹر مریض اگر کچھ عرصہ نظر نہ آئیں تو ان کے گرو اور چیلے انہیں ڈھونڈ کر دوبارہ لے آتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’آگاہی بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر اور این جی اوز کا کام ہے کہ کمیونٹی کو سمجھائیں کہ احتیاط کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔ ناچ گانا اور بھیک تو کسی نہ کسی طرح چل ہی جائے گا، لیکن جنسی رویوں میں احتیاط ہی ان کی زندگی کو محفوظ بنا سکتی ہے۔ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی اسکریننگ لازمی ہے۔ جو لوگ پروٹیکشن استعمال نہیں کرتے ہم انہیں پریپ (PrEP) کی پیشکش کرتے ہیں، جو صرف ان افراد کے لیے ہے جنہیں ایچ آئی وی نہیں ہے، یعنی بچاو کے لیے استعمال ہونے والی دوا۔‘

فضیلہ کہتی ہیں کہ یہ بہت حوصلہ افزا بات ہے کہ سول ہسپتال میں ایچ آئی وی کے لیے الگ کاؤنٹر بنا دیا گیا ہے۔ برِج کی صائمہ زور دے کر کہتی ہیں کہ ’جیسے ہسپتال میں ہمارے لیے الگ ونڈو ہے، ویسے ہی نادرا میں بھی ہونا چاہیے، تاکہ بے فارم، ایکس شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کے مسائل حل ہو سکیں۔ اب سرکاری ہسپتال میں ہمارے لیے الگ قطار ہے اور پولیس اسٹیشن میں ایک ڈیسک بھی، نادرا میں بھی یہی سہولت ملنی چاہیے۔‘

ہر مریض کی طرح تقریباً نوے فیصد مخنث مریض بھی زندہ رہنا اور بہتر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ مرض کسی عمر کو نہیں دیکھتا، مگر جتنا مریض آگاہ ہوں گے اتنا ہی علاج کے لیے تیار ہوں گے، انہیں سمجھ آئے گی کہ دوا کھانے کے فائدے کیا ہیں اور نہ کھانے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

جناح ہسپتال کے ہیلتھ کونسلر علی کہتے ہیں، ’کونسلنگ کے دوران ہم خیال رکھتے ہیں کہ مریض کو اس کی مقامی زبان اور سادہ الفاظ میں سمجھائیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ کمیونٹی آپس میں بہت جڑی ہوئی ہے، ہمارے پاس رجسٹر مریض اگر کچھ عرصہ نظر نہ آئیں تو ان کے گرو اور چیلے انہیں ڈھونڈ کر دوبارہ لے آتے ہیں۔

تقریباً 95 فیصد مریض بہتر زندگی کی طرف آ جاتے ہیں۔ ہم انہیں سمجھاتے ہیں کہ دن میں ایک دوا لینی ہے تو اسے کسی روزمرہ کام کے ساتھ جوڑ لیں، مثلاً رات کے کھانے یا کسی مخصوص وقت کے ساتھ، تاکہ دوا میں ناغہ نہ ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت