نشتر ہسپتال مریضوں میں ایڈز پھیلنے کی انکوائری ڈاکٹروں نے مسترد کر دی

محکمہ صحت پنجاب نے نشتر ہسپتال کے 25 مریضوں میں ایڈز کی منتقلی کے معاملے میں وائس چانسلر ڈاکٹر مہناز خاکوانی کو عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کی۔

نشتر ہسپتال کی عمارت کا ایک منظر (نشتر ہسپتال فیس بک پیج)

حکومت پنجاب کی جانب سے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے نشتر ہسپتال، ملتان میں ڈائلیسز مشینوں سے مریضوں میں ایڈز کا وائرس (ایچ آئی وی) پھیلنے کی انکوائری رپورٹ اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی، جسے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے غیر قانونی اور جانبدارانہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔  

محکمہ صحت پنجاب نے نشتر ہسپتال کے 25 مریضوں میں ایڈز کی منتقلی کے معاملے میں رواں ہفتے انکوائری رپورٹ جاری کرتے ہوئے وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر مہناز خاکوانی کو عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کی۔

انکوائری میں ایم ایس کی غفلت ثابت ہوئی اور ان کا انکریمنٹ روکنے کی سفارش کی گئی، جب کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر غلام عباس کو قبل از وقت ریٹائرڈ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر پونم کو ایک درجہ تنزلی کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر بنانے کی سفارشات بھی کی گئیں، جبکہ رجسٹرار ڈاکٹر عالمگیر ملک، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ملیحہ اور ہیڈ نرس ناہید کو کیس سے باعزت بری کیا گیا۔

پی ایم اے پنجاب کے صدر ڈاکٹرکامران سعید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ڈاکٹر برادری اس انکوائری رپورٹ کو غیر قانونی، غیر آئینی اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کرتی ہے اور اسے حکام کی طرف سے مخصوص نتائج پر مبنی انتقامی کاروائی سمجھتی ہے۔‘رکن کمیٹی شاہد مگسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں انکوائری میں بطور محکمانہ نمائندہ شامل ہوا تاہم انکوائری افسران نے کی، جو قانون کے مطابق کی گئی۔ اس سے زیادہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘

ڈاکٹر کامران سعید کے بقول، ’جب مریضوں میں ایڈز کی تشخیص ہوئی تواس واقعہ کے حوالے سے پاکستان یورولوجسٹ، نیفرولوجسٹ ایسوسی ایشن نے تحریری طور پر حکام کو آگاہ کیا تھا، کہ موجودہ ڈائلیسز مشین خاص طور پر ملتان میں موجود تمام مشینوں میں آٹو کلیننگ کی سہولت موجود ہے اوروہ تمام ایڈز اور دیگر جراثیموں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لہذا اِن مشینوں کی وجہ سے ایچ آئی وی پھیلنے کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ کے موجودہ مریض تحفظ کے متعلق تمام قوانین و اختیارات صرف ہیلتھ کیئر کمشئن کے پاس ہیں اس سے ہٹ کر کوئی انکوائری قانونی نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ایکٹ میں وائس چانسلر صرف اکیڈیمک امور کی سربراہ ہیں اور اُن کا براہ راست ہسپتال کے انتظامی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پرنسپل جو کہ نشتر میڈیکل کالج کا انتظامی سربراہ ہے کو انکوائری میں شامل نہ کرنا اس کاروائی کو مشکوک بناتا ہے۔ ایم ایس ہسپتال کا انتظامی سربراہ ہے اور براہ راست مریضوں کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے اسے بھی بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول ڈاکٹر کامران ’اب تک ملک میں لاکھوں مریض ایڈز پروگرام میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور ان کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایڈز کے پھیلنے کی وجوہات میں انتقال خون، اتائیت، استعمال شدہ اوزار اور سرنجیں اور جنسی بے راہ روی سرفہرست ہیں۔ حکومت وقت نے نشتر یونیورسٹی کے معاملے میں سائنسی بنیادوں اور حقائق کے مطابق ایک منصفانہ اور شفاف انکوائری کروانے کے بجائے ایک غیر مستند انکوائری رپورٹ پر ایک سینیئر ڈاکٹر کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ حالانکہ گورنر پنجاب جو نشتر میڈیکل یونیورسٹی  کے چانسلر ہیں وائس چانسلر کو ذاتی شنوائی کر چکے ہیں۔ اب ان کی ذاتی شنوائی کے بعد ایک انکوائری کمیٹی بنانا قوانین کے برعکس ہے۔‘

پی ایم اے نے تحریری طور پر گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ بلاجواز جوائنٹ انکوائری کمیٹی ختم کی جائے۔ سائنسی بنیادوں پر جینیٹک سیکیوینسنگ کروائی جائے تاکہ اصل ذمہ داروں کی تصدیق ہو سکے۔ ذمہ دار ادارے انتقال خون اتھارٹی، ایڈز پراجیکٹ، محکمہ صحت پنجاب کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی تحقیقات کروائی جائیں۔ اتائیت کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔ ڈائلیسز کی سہولت، ادویات، ٹیسٹ زمینی حقائق کے مطابق کم از کم تحصیل لیول تک مہیا کی جائیں۔

ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی فیملی سکریننگ 

گذشتہ سال نومبر میں نشتر ہسپتال ملتان میں ڈائلیسز کرانے کے لیے آنے والے مریضوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہونے کے فوری بعد نشتر ہسپتال نے اس وائرس کی منتقلی سے متعلق وجوہات جاننے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔

اس رپورٹ کے مطابق ماہ اکتوبر میں ایک 40 سالہ مریض کو ایمرجنسی میں ہسپتال لایا گیا تھا۔ یہ مریض اس سے پہلے بھی ہسپتال میں ڈائلیسز پر تھا، جس کے دوران اس مریض کی موت ہو گئی، جس کے بعد ہپستال کے عملے کو پتا چلا کہ مذکورہ مریض ایچ آئی وی پازیٹیو یعنی ایڈز میں مبتلا تھا۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ 11 اکتوبر کو پیش آیا تھا۔ اس وقت ڈائلیسز یونٹ میں کل 270 مریض زیر علاج تھے، جس کے بعد تمام مریضوں کی نو نومبر تک 220 مریضوں کی سکریننگ مکمل کی گئی، جن میں سے 10 خواتین سمیت 25 میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت