آج کے دور میں جہاں جدید ایلوپیتھک میڈیسن نے بے پناہ ترقی کی ہے، وہیں یونانی طب نے بھی گذشتہ دہائیوں میں اپنے انداز میں خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا اور ترقی کی منازل طے کیں-
قدیم یونانی حکمتِ طب کی جڑیں تقریباً دو ہزار سال پرانی ہیں، جب یونانی فلسفی ہپوکریٹس نے پہلی بار اصولِ مزاج کا تصور پیش کیا۔ بعد ازاں گلیئن نے چار عناصر خون، بلغم، صفرا، سودا کی بنیاد پر بیماریاں سمجھانے کا نظام وضع کیا۔
یہ علم عرب حکیموں کے ذریعے ’طب یونانی‘ کے نام سے پھیلا اور صدیوں سے ہندوستان، ایران اور وسطی ایشیا میں رائج رہا۔
جنوبی ایشیا میں یونانی طب نے مسلمانوں کے دورِ حکومت میں خاص مقام پایا۔ دہلی سلطنت سے مغل دور تک حکیم طب یونانی کے معروف مراکز قائم کرتے رہے۔ بعد ازاں سمایلی دور میں یونانی طب کو متبادل علاج کے طور پر سامراجی دور میں بھی تسلیم ملا اور آزادی کے بعد انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں سرکاری تعاون سے جدید شکل اختیار کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سری لنکا نے اپنی روایتی آئورویدا کے ساتھ یونانی طب کو بھی وزارتِ Indigenous Medicine کے تحت رجسٹرڈ کیا، جبکہ نیپال میں مقامی حکیم اور جڑی بوٹیوں کے ماہرین نے اسے مسلم کمیونٹیز کے ساتھ استعمال میں رکھا۔
یونانی طب معروف حکیم ابن سینا اور رازی جیسے عظیم سائنس دانوں کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ یہ طب وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں صدیوں سے رائج رہی ہے اور آج بھی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال سمیت دیگر ایشیائی ممالک میں یونانی طب کو ایک معتبر روایتی علاج کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمدرد، قرشی اور صدیقی دواخانے جیسے بڑے ادارے یونانی طب کی صنعت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی یونانی طب کو متبادل طب کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
دہلی کے ڈاکٹر عزیر کی قیادت میں بقائی دواخانہ نہ صرف قدیم طریقوں کو زندہ رکھ رہا ہے بلکہ جدید تحقیق اور سہولتوں کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یونانی طب کی عالمی سطح پر پہچان اور قبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جس سے یہ نظام طب ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اپنی جگہ مضبوط کر رہا ہے۔
ڈاکٹر عزیر حکیم بقائی نے کہا کہ ’یونانی طب آج بھی لوگوں کی زندگیوں میں روشنی کی کرن ہے۔ اس کی قدیم تعلیمات کو جدید دور کے ساتھ ملا کر ہم بہتر نتائج حاصل کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے مریضوں کو حجامہ تھراپی، لیچ تھراپی اور دیگر روایتی علاج فراہم کرتے ہیں، جو خاص طور پر گردن کے مسائل، سنسائٹس، فروسن شولڈر اور کمر درد کے لیے بہت مفید ہیں۔‘
ڈاکٹر عزیر کے مطابق: ’حکومتِ ہندوستان نے وزارتِ آیوش کے ذریعے یونانی طب کو خصوصی تائید دی ہے، جس سے نہ صرف طب کے تعلیمی ادارے مضبوط ہوئے بلکہ تحقیق اور دوا سازی میں بھی ترقی ہوئی ہے۔
’وزارت آیوش کے تعاون سے اب یونانی طب کی کلاسیکی کتابوں کا عربی اور فارسی سے ترجمہ ہو رہا ہے تاکہ نئی نسل بھی اس علمی ورثے سے مستفید ہو سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں فخر ہے کہ نہ صرف بزرگ بلکہ نوجوان بھی یونانی طب کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سستا اور موثر علاج فراہم کر کے صحت مند معاشرہ تشکیل دیں۔ ہمارے یہاں مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور ہمیں مثبت نتائج مل رہے ہیں۔‘
دہلی میں یونانی علاج بے حد مقبول ہے۔ یہاں بے شمار دواؤں کی دکانیں ہیں جو یونانی ادویات فراہم کرتی ہیں اور کئی یونانی کمپنیاں ان ادویات کی تیاری کرتی ہیں۔
ڈاکٹر عزیر حکیم بقائی کا کہنا ہے کہ پورے انڈیا میں لوگ یونانی علاج کو سراہتے ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد کچھ یونانی کمپنیاں پاکستان منتقل ہو گئیں، جیسے قرشی دواخانہ، صدیقی دواخانہ اور ہمدرد دواخانہ، جبکہ کئی یہاں رہ کر کامیابی سے کام کر رہی ہیں۔
بقائی دواخانہ کی تاریخ بتاتے ہوئے ڈاکٹر عزیر حکیم بقائی نے کہا کہ اس کی بنیاد 1930 میں حکیم منیر الدین نے رکھی۔ ان کے دو بیٹوں، شریف الدین بقائی اور حکیم شجاع الدین نے ان کا کام سنبھالا۔
وہ بتاتے ہیں کہ حکیم شجاع الدین بعد میں پاکستان منتقل ہو گئے، جبکہ شریف الدین بقائی نے پورے انڈیا میں یونانی طب کو فروغ دیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حکیم عزیز الرحمٰن نے میراث کو آگے بڑھایا اور اب میں عزیر بقائی، دواخانہ کا انتظام چلا رہا ہوں۔