نیم حکیم خطرہ جاں

ہمارے ہاں مڈل اور لوئر مڈل کلاس میں آج بھی دیسی دوا دارو کرنے والے کو معتبر مانا جاتا ہے چاہے طبیب دیسی علاج کے نام پر آپ کی جان داؤ پر لگا دے، میڈیکل سائنس کے مقابلے میں نیم حکیم کا طریقہ علاج ہمیں پسند ہے۔

یکم اکتوبر 2021 کو پشاور کے باہر گاؤں میں ایک ہیلتھ ورکر ڈینگی کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے (اے ایف پی)

چند روز قبل ایک خاتون کی جگر کے کینسر سے وفات ہوئی اور وجہ یہ تھی کہ بروقت کسی ڈھنگ کے ڈاکٹر سے علاج  نہیں کروایا گیا۔

مرض بگڑ گیا اور تکلیف تو اس وقت سوا ہوئی جب ایسے حال میں  بھی ان کی فیملی کے لوگ کبھی کسی عامل بابا سے دم درود کی باتیں کرتے تھے اور کبھی کسی دیسی علاج کے مشورے۔

یہ مشورے دینے والے لوگ بھی کمال ہوتے ہیں۔ انہیں مرض کی الف بے بھی نہیں پتہ ہوتی لیکن مشورے ایسے ماہرانہ انداز میں دیتے ہیں کہ سننے والا ان کی مہارت کا قائل ہو کر اپنی جان نذر کردیتا ہے۔

پتہ نہیں کیسے ہم لوگ اس قدر ظالم ہوجاتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ معاملہ ایک مکمل انسانی جان کا ہے اور دکھ اس بات کا ہے کہ یہ رویہ ہم اپنے لیے بھی ایسے ہی اختیار کرتے ہیں اور اپنے مرض کو تب تک ٹالتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ جان لیوا حد تک بگڑ نہیں جاتا۔

ہمارے ہاں مڈل اور لوئر مڈل کلاس میں آج بھی دیسی دوا دارو کرنے والے کو معتبر مانا جاتا ہے چاہے طبیب دیسی علاج کے نام پر آپ کی جان داؤ پر لگا دے، میڈیکل سائنس کے مقابلے میں نیم حکیم کا طریقہ علاج ہمیں پسند ہے۔

واضح رہے کہ یہاں میں باقاعدہ ڈگری یافتہ حکمت کے ماہرین کی بات نہیں کر رہی، بات ہو رہی ہے گلی محلوں کے ان اتائی معالجوں کی جن کی وجہ سے لوگ عموماً اپنے امراض کو بگاڑ بیٹھتے ہیں اور جب جان لبوں پہ آتی ہے تو پھر کسی ہاسپٹل کی ایمرجنسی کا رخ کرتے ہیں۔

اب ایمرجنسی میں کوئی معجزوں کا وعدہ تو ڈاکٹر نے کر نہیں رکھا ہوتا تو اکثر دم توڑنے والے مریضوں کے لواحقین اسے کوستے ہیں اور کبھی کبھار تو دھنک بھی دیتے ہیں۔

یہی کچھ مردانہ اور زنانہ پوشیدہ امراض کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے کہ کشتوں اور معجونوں کی ایک بڑی تعداد اس احساس کمتری کو پیدا کرنے کے بعد بیچی جاتی ہے کہ فلاں کو مردانہ کمزوری ہے اور ڈھمکاں کو بانجھ پن کا مسئلہ۔

بہت سے نوجوانوں کو اپنے گردے تباہ کرنے کے بعد سمجھ آتی ہے کہ معاملہ مردانہ کمزوری کا نہیں تھا اس خوف کا تھا جو دل و دماغ میں راسخ کر دیا گیا تھا۔

یہ اور اس طرح کے دیگر معاملات کا زیادہ تر تعلق نفسیات سے ہوتا ہے لیکن یہ عاملین اور نیم حکیم اسے ’بچپن کی غلط کاریوں‘ سے جوڑ کر کبھی شوہروں کو دوائی بیچتے ہیں تو کبھی عورتوں کو کنوارپن کھو جانے کا ڈر دلا کر اپنا چورن بیچتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں ازدواجی زندگی کے مسائل کے لیے کسی بھی طرح کی کونسلنگ کا کوئی ادارہ تو کجا، رواج تک نہیں ہے۔ اب جا کر کہیں کہیں کسی ماہر نفسیات یا ماہر امراض نسواں کے کلینک کے باہر ماہر جنسیات کا لفظ لکھا دکھائی دے جاتا ہے اور ہم  لوگ جس طرح کسی ماہر نفسیات کے کلینک کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گھبراتے ہیں کسی ماہر جنسیات کے ہاں تو جانے کا سوچتے بھی نہیں۔

البتہ شباب لوٹانے والے حکیم صاحب کا تھڑا چڑھتے ہوئے اور ہزاروں روپے اس کی ادویات پر لگاتے ہوئے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

اسی طرح اکثر و بیشتر ہم سنتے ہیں کہ گردے کی ، مثانے کی اور پتے کی پتھری کا علاج ایک تعویذ یا دم کیے ہوئے پانی کے ذریعے کیا جا رہا ہے اور حیرت تب ہوتی ہے جب لوگوں کو وہاں سے واقعی شفا مل بھی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اپنی ہی ایک رشتے دار کے ساتھ ہوئے اس معجزے کی چشم دید گواہ ہونے کے ناتے میں نے ذرا غور کیا تو سمجھ آئی کہ اس دم سے قبل کوئی ایلوپیتھک دوا بھی کھائی جا رہی تھی۔ تھوڑا سا غور کرنے پر بات سمجھ آتی ہے کہ اتنے عرصے سے جو دوا دارو کا چکر چل رہا تھا آخر اس نے بھی تو اثر کرنا ہوتا ہے یا نہیں؟

اصل میں یہ ہوتا ہے کہ اتنی ٹکریں مارنے کے بعد جب مریض کسی دیسی حکیم یا دم درود والے کے پاس جاتے ہیں تو تب تک مرض ویسے ہی اپنے آخری دن پورے کر رہا ہوتا ہے اور اس وقت کسی کی آخری کوشش کو سارا کریڈٹ مل جاتا ہے۔

مگر ہر بار ایسے اتفاقات ہوں، یہ ضروری بھی نہیں۔ اس لیے اپنی زندگی کو کسی بڑے خطرے میں ڈالنے کی بجائے باقاعدہ مستند ڈاکٹرز سے علاج ہر طرح سے محفوظ راستہ ہوتا ہے۔

کوئی بھی مرض اپنی ابتدا میں قابل علاج ہوتا ہے اگر وہ کینسر کی طرح اپنی جڑیں مضبوط کر لے تو اس کا آخری حل موت کی آغوش میں پناہ ہے۔

جان ہے تو جہان ہے! فیصلہ آپ کریں کہ اپنے پیاروں کو اور خود کو ایسے امتحان میں ڈالنا ہے یا زندگی جیسی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے سینچ سینچ کر رکھنا ہے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ