لوگ پوچھتے ہیں بچیاں اس فیلڈ میں کیسے آ سکتی ہیں: اورنج ٹرین کی پہلی خاتون ڈرائیور

لاہور کی ندا صالح کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اورنج لائن ٹرین کو چلانے والی پہلی خاتون ڈرائیور ہیں۔

ٹائی کے ساتھ سیاہ یونیفارم زیب تن کیے ایک لڑکی لاہور میں چلنے والی اورنج لائن ٹرین کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے ہوئے ہے۔

یہ لاہور کی ندا صالح ہیں، جو شہرِ اقبال میں اورنج ٹرین کی پہلی خاتون ڈرائیور کے طور پر تعینات ہوئی ہیں اور گذشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

ٹرانسپورٹیشن انجنیئیرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والی ندا صالح نے نہایت اعتماد سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے تعلیم کے دوران ہی یہ خواب دیکھا تھا کہ ٹرین ڈرائیور اور ٹرانسپورٹیشن جیسے شعبوں میں خواتین کو بھی متعارف کروایا جانا چاہیے۔

بقول ندا: ’میں پہلے سے اورنج لائن منصوبے میں کام کر رہی تھی۔ میں نے وہاں چینی انتظامیہ کے ساتھ اپنے اس خواب کو شیئر کیا اور انہوں اس آئیڈیا کو سراہا اور میرے خواب کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔‘

اورنج لائن لاہور ایک ریپڈ ٹرانزٹ لائن ہے، جسے پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی چلاتی ہے اور یہ لاہور میٹرو نظام کا حصہ ہے۔

یہ لائن 27.1 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں 25.4 کلومیٹر بلندی اور 1.72 کلومیٹر زیرِ زمین ہے۔ اورنج لائن ٹرین کے 26 سٹیشن ہیں اور اس میں روزانہ ڈھائی لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔ 

ندا صالح، جنہوں نے حصول تعلیم کے دوران ہی اورنج ٹرین چلانے کی تربیت مکمل کی، کا کہنا کہ ’پہلے دن میں نے ٹرین چلائی تو اپنے اوپر پورا بھروسہ تھا اور ٹرین کے مسافر مجھے دیکھ کر بہت حیران تھے۔ اسی دوران کچھ خواتین میرے پاس آئیں اور پوچھا کہ انہیں کس طرح کی تعلیم درکار ہو گی، اگر وہ بھی اس فیلڈ میں آنا چاہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’ٹرین ڈرائیونگ ویسے تو مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن میرا تربیت کا سفر آرام دہ رہا کیونکہ میرے پاکستانی اور چینی ٹرینرز اور اورنج لائن کی مینیجمنٹ نے بہت اچھا ماحول مہیا کیا، جس کی وجہ سے میں ایک ٹرین ڈرائیور بنی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ندا کے مطابق: ’شروع میں ٹرین میں بیٹھنے والے بھی تھوڑا گھبراتے تھے لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کو مجھ پر اعتماد ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ کچھ خواتین مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہوتی ہیں اور سٹیشن پر لوگ آ کر پوچھتے ہیں کہ ان کی بچیاں کس طرح اس فیلڈ میں آسکتی ہیں۔

’میرا تو مقصد اسی رکاوٹ کو توڑنا تھا اور پاکستان میں ایک ایسا وژن پیدا کرنا تھا کہ خواتین غیر روایتی شعبوں میں بھی آ سکتی ہیں۔‘

ندا کا کہنا تھا کہ ان کی ڈیوٹی کے چھ سے آٹھ گھنٹے ہوتے ہیں اور انہیں عام طور پر دن کے اوقات میں شفٹ دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی فیملی کو وقت دے پاتی ہیں۔

’ابتدا میں میری فیملی نے بھی تھوڑا اعتراض کیا تھا۔ میں پہلے سے اورنج لائن میں بطور ٹرانسپورٹیشن انجینیئر کام کر رہی تھی، آفس میں بیٹھ کر کام کرتی تھی تو والدین نے بھی کہا کہ ڈرائیور بننے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب میں نے انہیں بتایا کہ میں اس سوچ کی قیادت کرنا چاہتی ہوں کہ سوسائٹی میں ایک مثبت حصہ داری ہو گی تو پھر انہیں میری بات سمجھ آئی اور میرے والد اور والدہ دونوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔‘

ندا چاہتی ہیں کہ اورنج لائن ٹرین کے بعد مستقبل میں آنے والے ٹرانسپورٹیشن کے دوسرے منصوبوں میں بھی خواتین شامل ہوں۔

’میں ان (خواتین) سے کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہاں ضرور آئیں کیونکہ پاکستان میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستانی خواتین کو ٹرین ڈرائیونگ جیسے شعبوں میں ضرور آنا چاہیے۔ یہ پاکستان کے وقار میں اضافے کا باعث بنے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر