محکمہ ٹرانسپورٹ پنجاب کے مطابق شہر لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی سالانہ قسط میں ایک ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
اس منصوبے پر حاصل شدہ قرضوں کی سالانہ اقساط میں چند سالوں میں اب تک کل 19 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ مالی مشکلات کی شکار صوبہ پنجاب کی حکومت کے لیے اقساط میں یہ اضافہ کافی مشکلات پیدا کررہا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے میٹرو بس کے بعد لاہور میں دوسرے ماس ٹرانزٹ پروگرام یعنی اورنج لائن ٹرین کا منصوبے کو مکمل کیا جو حکومت تبدیل ہونے کے بعد موجودہ حکومت نے شروع کیا۔
اس منصوبے کو موجودہ حکومت ابتدا سے ہی سفید ہاتھی کی مانند نقصان دے منصوبہ قرار دے رہی ہے۔ سابق دور حکومت میں اس منصوبہ پر کام روکنے کے لیے بھی پی ٹی آئی نے عدالت سے رجوع کر کے حکم امتناعی حاصل کیا تھا۔
صوبہ پنجاب کی موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں کو سبسڈی دینے کے ساتھ قرضوں کی ادائیگی سے صوبے کی معاشی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
حکومت پنجاب کے مطابق سابق حکومت ایسے منصوبوں سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ تو کرتی رہی لیکن اداروں کی مالی پریشانی کی پرواہ نہیں کی جس سے دیگر منصوبوں کے فنڈز کاٹ کر اورنج لائن کی سبسڈی اور قرضوں کی اقساط ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔
دوسری جانب اورنج لائن ٹرین کے حکام کا موقف ہے کہ دنیا بھر میں ماس ٹرانزٹ منصوبوں پر سبسڈی معمول کی بات ہے بنگلہ دیش اور انڈیا جیسے ممالک بھی سبسڈی دے رہے ہیں تو ہماری حکومت کیوں پریشان ہوتی ہے؟
ان کے مطابق لاہور میں چار ماس ٹرانزٹ لائنز مکمل ہوجائیں تو شہر میں ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت سے اندرون شہر سفری سہولت مکمل ہوجائے گی لیکن دو پر ابھی تک کام شروع ہی نہیں ہوسکا ہے۔
اورنج لائن ٹرین کے قرضوں کی اقساط میں اضافہ
محکمہ ٹرانسپورٹ پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق اورنج لائن میٹرو ٹرین کے لیے حاصل کیے گئے قرض کی سالانہ قسط میں صرف تین ماہ میں ایک ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ طے شدہ معاہدے کی شرائط میں مختلف شیڈول کے مطابق اقساط میں اضافہ کرنا تھا اور ڈالر ریٹ بڑھنے سے بھی اقساط میں اضافہ ہوا ہے۔
چین سے ہونے والے معاہدوں کے مطابق پنجاب حکومت 2024 سے 2036 تک اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کا قرض ادا کرے گی۔
صوبائی وزیر یاور بخاری کے بقول ایک ہزار 79 ارب روپے سے زائد رقم کا مقروض صوبہ پنجاب سالانہ 19 ارب روپے اورنج لائن ٹرین کا قرض اتارے گا۔
پنجاب حکومت 12 سال تک سالانہ 19 ارب پہلی ملکی لائٹ ریل کے قرض پر سود کے طور پر ادا کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے یاور بخاری نے کہا ’اس سے قبل سالانہ قسط کی رقم 16 ارب روپے تھی جو گدشتہ برس بڑھا کر18 ارب ہوئی۔‘
صوبہ پنجاب کی سابقہ حکومت کی جانب سے اورنج لائن میٹرو ٹرین کے لیے 1.62 ارب ڈالر کا معاہدہ ایگزم بنک کے ساتھ کیا گیا تھا۔
جبکہ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی پنجاب کے جنرل مینجر عزیر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم 144 ملین قرض واپس کر چکے ہیں۔‘
ان کے مطابق حکومتوں کو عوامی مفاد کے منصوبوں پر سبسڈی دینا لازمی ہے۔ ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے کیوں کہ ایسے منصوبے ایک بار بن جائیں تو ریاستی اثاثہ بن جاتے ہیں۔
ان کے مطابق ڈھاکہ میں بنگلہ دیش حکومت 9 ارب ڈالر سے سٹی ٹرانسپورٹ سروس کی چار لائنز بنا رہا ہے۔
ان کے مطابق: ’ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا 28 لائنز مکمل کر چکا ہے ہم صرف ایک لائن پر ہی پریشان ہیں۔‘
لاہورمیں ماس ٹرانزٹ لائنز کا پیکج مکمل ہوسکے گا؟
سابقہ پنجاب حکومت نے 2010 میں لاہور اور پنجاب کے بڑے شہروں کو ماس ٹرانزٹ منصوبوں کے ذریعے مکمل جدید شہری ٹرانسپورٹ سسٹم پر لانے کا فیصلہ کیا تھا۔
عزیر شاہ کے مطابق سابق پنجاب حکومت نے دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لاہور میں چار لائنز گرین، اورنج، پرپل اور بلیو کی ٹرانسپورٹ سروسز کے منصوبہ بنا کر یہ پیکج مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ان کے مطابق: ’سب سے پہلے لاہور میں ترکی کے تعاون سے میٹرو بس سروس کا افتتاح 2013 میں اس وقت کے وزیر اعلی شہباز شریف نے ترکی کے نائب وزیر اعظم کے ہمراہ کیا تھا۔
اس کے بعد چار لائنز میں سے پہلی اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ شروع کیا گیا جو مکمل ہونے کے قریب تھا تو حکومت تبدیل ہوئی اور موجودہ حکومت اس منصوبہ پر زیادہ توجہ نہ دے پائی ابھی تک قرضوں کی اقساط پر مشکلات برقرار ہیں۔
سابق صوبائی سینیئر وزیر علیم خان نے عہدہ سنبھالتے ہی اورنج لائن ٹرین کو سفید ہاتھی قرار دیا تھا اور اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے سٹیشنز اور ٹرینوں کی برینڈنگ سمیت سٹیشنوں پر سٹالز لگوانے ریستوران بنوانے کا اعلان کیا تھا جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔