مون سون میں مجھے بھی امیر خسرو کے کلام کی مانند اپنا میکہ یاد آتا ہے۔ جب ہم سکول کالج کے طالب علم ہوا کرتے اور کراچی کو مون سون یا ساون کا مہینہ اپنی گرفت میں لیتا اور بارش کی پہلی بوند کچی مٹی میں اپنی سوندھی خوشبو بسا دیتی اور امی سب کی فرمائش پہ پوریوں اور پکوڑوں کا اہتمام کرتیں۔
ایسے میں ابو اکثر آفس سے امی کو فون کیا کرتے اور فرمائش ہوتی کہ آج پوری ترکاری بنے گی اور رات کو امی ڈھاکہ سے خریدے گئے اپنے ہارمونیم پہ امیر خسرو کا کلام بھی سنائیں گی۔
’نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کے من بودم‘۔ اس مون سون میں بھی مجھے اپنے ڈرائنگ روم میں رکھے امی کے اینٹیک ہارمونیم کو دیکھ کہ وہی زمانہ یاد آگیا۔ اب بھی ہارمونیم ہے بس وہ دونوں نہیں۔
امیر خسرو کے کلام میں بیان کیا گیا ساون، ایک مخصوص رت اور رنگ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جس میں بیاہی بیٹی کی میکے جانے اور میکے والوں سے ملنے کی چاہ، ساون کے رنگ اور برسات کی خوشی سبھی شامل ہیں۔
’اماں میرے باوا کو بھیجو ری کہ ساون آیا‘ یہ امیر خسرو کا وہ کلام ہے جو ہمیں بچپن میں پی ٹی وی کے پروگراموں میں سننے کو ملا کرتا۔ ساون کا موسم اور خسرو صاحب کے کلام کی جڑت ایسے ہی ہیں جیسے چائے اور پکوڑے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ساون کی گھٹا اپنے ساتھ موسمی پکوانوں کی مہک بھی لاتی ہے، بادلوں کے ساتھ چائے پکوڑے ہوں یا گرما گرم کچوریاں لگتا ہے کہ اگر یہ چولہے پہ نہ چڑھیں تو بادل برسیں گے نہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے مشہور لیکھک وسعت اللہ خان کی والدہ محترمہ جن کا تعلق راجھستان سے ہے، سے ساون کے پکوان جاننا چاہے تو ان کے بقول، ’ بیسن کے پکوان بنا کرتے۔ جن میں بیسن کےچیلے اور الٹے پلٹے بنا کرتے تھے جو آج کل بننے والے پین کیک سے مماثلت رکھتے ہیں۔ آٹے کی باٹیاں بنا کرتیں جو آٹے کے گول پیڑوں کو دہکتے اپلوں میں دبا کے بنائی جاتی تھیں۔ پکوڑے اور خمیرے آٹے کے گلگوں کی کڑاہی چڑھا کرتی تھی۔ میٹھے گلگلے اور برستی بارش کا اپنا لطف ہوتا‘۔
امیر خسرو کی شاعری میں ساون کا مہینہ اپنے ارد گرد ہریالی کے رنگ بکھیر دیتا، رشتوں کی بنت کو تیز کر دیتا اور بچھڑے ہووں سے ملنے کی چاہ کو بڑھا دیتا ہے۔ ان کی ساون سے جڑی شاعری میں ساون کے رنگ اور مور کے پھیلے پنکھوں کا ذکر ملتا ہے۔
امیر خسرو کے ساون کو ادبی ناقد سلمان آصف کچھ یوں بیان کرتے ہیں، ’ساون کی موسمی حقیقت میں جہاں موسموں کی ہریالی، مٹی کی خوشبو، بادلوں کی گرج اور بارش کی چھم چھم شامل ہے، وہیں امیر خسرو کے اشعار میں یہی بارش دل کی دھڑکن، وصال کی تمنا، فراق کی تڑپ اور روح کی سرشاری بن جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، خسرو کی کافی، اماں میرے باوا کو بھیجو ری، کہ ساون آیا،‘ یہ صرف ایک فقرہ نہیں بلکہ ایک پوری تہذیبی کیفیت اور جذباتی نکتہ نظر کا اظہار ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلمان آصف کے بقول ’ساون ہندی اور اردو تہذیب کا ایک جمالیاتی تجربہ ہے، امیر خسرو نے اس تجربے کو ایک لڑکی کی آواز، ایک عاشق کی فریاد اور ایک صوفی کی دعا میں ڈھالا۔ آج ہمارا میڈیا اور ہم سب اگر چاہیں تو اس ثقافتی ورثے کو نہ صرف یاد رکھ سکتے ہیں بلکہ نئے انداز میں بھی زندہ کر سکتے ہیں۔‘
کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں مقیم صحافی سمن نوید سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے ساون اور امیر خسرو کے کلام کی دھن پہ بات کی تو سمن نوید نے کہا ’آج کل پاکستانی میڈیا میں صرف مون سون کی تباہ کاریوں کی بات کی جاتی ہے، کتنے علاقے زیر آب آ گئے، کتنی فصلیں تباہ ہوئیں کتنے انسان اور مویشی سیلابی ریلے کی لپیٹ میں آئے، ان خبروں میں کہیں امیر خسرو کے ساون کا تصور نہیں ہوتا، مانا کہ یہ سب خبر رسانی بھی اہم ہے لیکن یہ خبریں سرکاری لاپروائیوں کی طرف اشارہ کرتی ملتی ہیں جو افسوس کے ساتھ کوئی بھی سرکار ہو ان تباہ کاریوں کے قبل از وقت سد باب میں کمزور نظر آتی ہے‘۔ اور گلوبل وارمنگ نے جیسے ساون رت کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہو۔
لیکن سمن نوید پی ٹی وی کا وہ دور بھی یاد کرتی ملیں جب ساون کے جھولے اور امیر خسرو کے کلام سے سننے اور دیکھنے والوں کے ذہنوں میں ساون کی رنگینیاں جھوما کرتیں ، بقول ان کے ’ خسرو صاحب کے کلام میں ساون کا احوال کچھ یوں بھی ملتا ہے کہ،
دھانی رنگت میں بھیگت ہو دل کی چنری بھی
اور پون لہرا کے گاوت ہو اک ٹھمری بھی۔۔۔۔
یا
سرسوں پھول بنی اور کوئل کوکت راگ ملھار
ناریاں جھولے ڈال کے دیکھت ہیں ساون کی دھار
وغیرہ وغیرہ۔۔
سمن نوید نے ان سبھی اشعار کے ساتھ جوڑ کے امیر خسرو اور ساون کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، ان کا ماننا تھا کہ آج کا میڈیا ساون کے لطف پہ کم ہی بات کرتا ہے، چاہے وہ آج کل کے ڈرامے ہوں یا خبریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب بھی مون سون آتا ہے تو مجھے پاکستان میں گزارے کئی ساون یاد آتے ہیں جب ساون کی رونق ہوا کرتی تھی جو اب نہیں۔ بچپن میں محلے کے سب بچے بارش میں باہر نکل آتے تھے، پکوڑے بنتے تھے، ہارمونیم نکلتا تھا کیونکہ برسات میں اس کے سر کھل جاتے ہیں اور ہارمونیم کی آواز اچھی ہو جاتی ہے۔
’پہلے ساون سے جڑے ٹی وی، ریڈیو کے پروگرام بنا کرتے تھے لیکن اب ،جب پاکستان سے مون سون کے حوالے سے خبریں آتی ہیں تو ہم دور بسے اپنے پیاروں کی خیریت کی دعا کرتے ہیں‘۔
کراچی کی شائستہ سعید بھی کئی دہائیوں پرانے کراچی کے مون سون کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ساون کی جھڑی کے ساتھ پکوڑے تلے جاتے تھے اور ایک خوشی کی لہر لوگوں میں دوڑ جایا کرتی، ٹیپ پہ امیر خسرو کے گیت بجائے جاتے اور کہہ سکتے ہیں کہ یہ رونق خسرو سے جڑی تھی۔ لیکن اب تو بارش کا خیال آتے ہی تباہ کاریوں کی فکر لگ جاتی ہے۔ اور یوں بھی اب ساری پروگرامنگ پہ سیاست چھائی ہوئی ہے‘۔
ساون کا لطف مون سون کی تباہ کاریوں کی زد میں کیونکر آیا، ہم نے اس کا بھی جواب تلاشنے کی کوشش کی تو شہری منصوبہ بندی سے کئی برسوں سے جڑے فرحان انور نے اس پر روشنی ڈالی۔
ان کے مطابق ’جیسے جیسے گرین گیسز کا اخراج کم ہو رہا ہے اور شہروں کے شہرگارے مٹی کا ڈھیر بن رہے ہیں، ڈرینیج بیسنز یا نکاسی آب کے طاس مٹتے جا رہے ہیں، شہروں میں مون سون رعنائیت کم اور تباہی زیادہ لاتا ہے۔
’اس کی بڑی وجہ عالمی سطح پہ آبادی میں اضافہ ہے۔ اور پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو وسائل سے زیادہ مسائل میں گھرا ہے اور ہم کسی دیرپا پلاننگ کی سکت نہیں رکھتے اسی لیے ہمارا ساون اب خسرو کے کلام والا نہیں بلکہ مشکلات و آلام میں مبتلا رہتا ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔