مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون

آج کل کے بچے بھی شاید کل اپنی دولت اور شہرت دینے کے لیے تیار ہوں، مگر اس کے بدلے خریدیں گے کیا؟ بچپن کی کون سی یاد؟ نجانے جگجیت کی یہ غزل کبھی ان کی آنکھوں میں بھی نمی لا سکے گی یا نہیں۔

بارش  کے  پانی میں تیرتی کسی بچے کی کاغذ کی کشتی (تصویر: پکسا بے)

جگجیت سنگھ جب بھی ٹی وی پرگنگنا رہے ہوتے، ریموٹ ابو کے ہاتھ سے نکل کر وہیں زمین پر ڈھیر ہوجاتا تھا اور جب جب غزل کے الفاظ یہ ہوتے:

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو

بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

سماں وہیں بندھ جاتا تھا، وقت ٹھہر جاتا تھا اور ہر دفعہ اس غزل پر امی کو کچن سے بھاگ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھے دیکھا۔ تھوڑی دیر میں دونوں ہی جگجیت کے ساتھ ساتھ گنگنا رہے ہوتے۔ بچپن میں ان کا یہ انہماک سمجھ نہیں آتا تھا۔ پھر جب اپنا بچپن ماضی کا قصہ ہوا تو جگجیت کی اس غزل کے سامعین اور ناظرین میں میں بھی شامل ہوگئی۔ اب امی، ابو اور میں، ہم تینوں اشعار میں چھپا اپنابچپن ٹٹولنے لگے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر ایک کو غزل کے ہر مصرعے میں اپنے بچپن کی یاد آتی تھی۔ ایسا لگتا ہے غزل اسی کے لیے لکھی گئی ہے۔

محلے کی سب سے پرانی نشانی

وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی

اتفاق سے سبھی کے محلے میں وہ نانی تھیں، جو اب بھی یاد آتی ہیں۔ ان کی شفقت اور چہرے کی جھریاں سبھی یاد ہے۔

بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی

وہ چھوٹی سی راتیں، وہ لمبی کہانی

پورا بچپن کہانیاں سنتے ہی گزر گیا۔ سوشل میڈیا، یوٹیوب اور نیٹ فلکس کے دور میں آج بھی وہ کہانیاں ازبر ہیں۔ کسی بادشاہ کی بیٹی پر کیا افتاد پڑی کہ اس نے رعایا میں اعلان عام کروادیا۔ پھر جب کوئی شہزادہ آکر اس کی دلی مراد پوری کرے اور بادشاہ انعام کے طور پر اپنی آدھی جائیداد دے دے۔ سونے سے پہلے کہانیوں کے پنڈار سے روز ایک کہانی چننا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کسی دن کوئی اچھا کام کریں تو امی سے انعام کے طور پر دو کہانیاں سننے کو ملتی تھیں۔ بادشاہ، اس کی سلطنت اور ہر کہانی کا ایک ایک کردار تخیل میں تخلیق ہوتا تھا۔

وہ گڑیا کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا

وہ جھولوں سے گرنا، وہ گر کے سنبھلنا

اب تک کتنی گڑیاؤں کو ان کے سسرال رخصت کیا اور کتنی شادیوں میں شرکت کی، یہ تعداد بھی یاد نہیں، مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ بہت مصروف وقت ہوتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے کپڑوں کی تیاری میں، دوستوں کو دعوت دینا، پھر ان کے ساتھ بھرپور وقت گزارنا۔

کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا

گھروندے بنانا، بنا کر مٹانا

وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی

وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی

نہ دنیا کا غم تھا، نہ رشتوں کے بندھن

بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی

اپنی تو وہ زندگانی واقعی خوبصورت تھی۔ گلی محلے کے دوستوں کے ساتھ مل کر سارے کھیل کھیل لیے۔ چھم چھم چھم، مچھلی مچھلی، لنگڑی پالا، چھپن چھپائی اور ایسے بہت سارے کھیل۔ ان سب کے بعد ویڈیو گیم کی باری بھی آتی تھی لیکن اس کا وقت طے ہوتا تھا۔ سوپر ماریو ہمارا فیورٹ تھا۔ 24 گھنٹے کھیلنے کی نہ تو اجازت تھی، نہ ہی طلب۔ چونکہ دوسرا بہت کچھ کرنے کو تھا۔    

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر ذہن میں گھوما آج کے بچوں کا روبوٹ نما بچپن۔ کزنز کے بچوں کی زندگی پر نظر دوڑائی تو کچھ یہ حال نظر آیا۔ صبح اسکول، وین والا وقت سے بہت پہلے آئے گا اور گھوم گھام کے اسکول پہنچائے گا۔آدھا دن اسکول میں گزارنے والے یہ بچے واپسی میں بھی کچھ گھنٹے وین میں یونہی خوار ہوتے ہیں۔

 گھر آکر کھانا کھایا اور پھر ٹیوشن، چند گھنٹے وہاں گزار کر واپسی کی راہ، پھر مدرسہ اور ان سب کے بعد تھک ہار کر گھر واپسی پر ان کے ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے موبائل یا ٹیبلٹ۔اب بچے ہیں اور ان کا اسکرین ٹائم۔ اپنی مرضی سے جو چاہیں جب چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ چند ماہ کے بچے سے لے کر دس سال تک کی عمر کے میرے تمام بھتیجوں اور بھانجوں کو موبائل تھمایا گیا ہے۔ والدین کو علم تک نہیں ہوتا کہ بچے کیا دیکھ رہے ہیں اور رہی جسمانی سرگرمی تو وہ ہے صفر۔ اسکول، ٹیوشن، مدرسہ اور پھر موبائل، بیٹھے بیٹھے ہی دن کٹ جاتا ہے۔تعلیم کی غرض سے ٹیکنالوجی کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں مگر بچوں کو مصروف رکھنے اور اپنے کام نمٹانے کے لیے موبائل تھما دینا درست نہیں۔

یہ بچے بھی شاید کل اپنی دولت اور شہرت دینے کے لیے تیار ہوں، مگر اس کے بدلے خریدیں گے کیا؟ بچپن کی کون سی یاد؟ نجانے جگجیت کی یہ غزل کبھی ان کی آنکھوں میں بھی نمی لا سکے گی کیونکہ جس اسکرین کے سامنے آج بیٹھے ہیں، یہ تو کل بھی میسر ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ