پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کے تناظر میں پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں نے جون میں انسداد دہشت گردی کے قوانین منظور کیے تاکہ تیزی سے بدلتی ہوئی دہشت گردی کے خطرات کا مؤثر طور پر جواب دیا جا سکے۔
ان دونوں صوبائی حکومتوں کی جانب سے منظور کیے گئے قوانین کے مؤثر نفاذ کی صلاحیت اور سیاسی عزم ان کی کامیابی کے اہم عوامل ہوں گے۔ اسی پس منظر میں، یہ تحریر ان قوانین کا جائزہ لیتی ہے اور ان کو درپیش ممکنہ چیلنجز پر روشنی ڈالتی ہے۔
پانچ جون کو بلوچستان حکومت نے انسداد دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025 منظور کیا، جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ شدت پسندوں کو تین ماہ تک بغیر کسی فردِ جرم عائد کیے یا عدالت میں پیش کیے بغیر حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔
تاہم، تین ماہ کے بعد زیرِ حراست افراد کو عدالت میں پیش کرنا لازم ہوگا اور ان پر عائد الزامات سے آگاہ کیا جائے گا۔ یہ قانون آئندہ چھ سالوں تک مؤثر رہے گا اور بلوچستان حکومت کی منظوری سے اس میں مزید دو سال کے لیے توسیع دی جا سکتی ہے۔
زیرِ حراست افراد کو ایک علیحدہ حراستی مرکز میں رکھا جائے گا، جو خاص طور پر اس مقصد کے لیے قائم کیا جائے گا، جہاں ان کے اہل خانہ ان سے ملاقات کر سکیں گے اور ان کے وکیل کو بھی اس بارے میں مطلع کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسدادِ دہشت گردی قانون میں درج جرائم میں ملوث کسی بھی مشتبہ فرد کو احتیاطی حراست میں تین ماہ تک رکھا جا سکتا ہے تاکہ تفتیش کی جا سکے، جو کہ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے انجام دی جائے گی۔
اگر مشتبہ شدت پسند کے خلاف حراست کے احکامات خفیہ ایجنسیوں یا مسلح افواج کی جانب سے جاری کیے گئے ہوں تو متعلقہ ادارے کے اراکین پر مشتمل ایک جے آئی ٹی اس معاملے کی تفتیش کرے گی۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو تلاشی، گرفتاری، جائیداد اور دیگر متعلقہ اشیا ضبط کرنے کے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے۔
مزید برآں، قانون کے تحت زیرِ حراست افراد کو کسی حراستی مرکز، بحالی مرکز یا انتہا پسندی سے نجات کے مرکز میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ زیرِ تفتیش شخص کو کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ متعلقہ تفتیشی ادارے یا افسر کی جانب سے تحریری درخواست دی جائے اور یہ سب کچھ عدالتی نگرانی کے بغیر کیا جا سکے گا۔
یقیناً یہ قانون دوہری غرض سے منظور کیا گیا ہے۔ پہلا مقصد انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قانونی اختیارات دینا ہے تاکہ وہ سیاسی اختلاف کو دبانے کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگیوں اور انٹرنمنٹ سینٹرز کو قانونی جواز فراہم کر سکیں۔
دوسرا مقصد بلوچستان میں سخت گیر انسدادِ دہشت گردی اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہونے والی تنقید کو رد کرنا ہے۔ سالوں سے بلوچستان میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور بلاوجہ گرفتاریاں انسداد بغاوت کی پالیسی کا حصہ بن چکی ہیں۔
ایک بار پھر پاکستانی ریاست اپنے اقدامات کی قانونی حیثیت کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے، بجائے اس کے کہ وہ ان کے جواز کو ترجیح دے، جو کہ انصاف پسند، شفاف، منصفانہ اور متناسب طاقت کے استعمال پر مبنی ہو اور جس کا احتساب بھی ممکن ہو۔
یہ قانون بلوچستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کو مزید عسکری اور سکیورٹی پر مبنی بنا دے گا، جس کے نتیجے میں تشدد اور بدامنی میں اضافہ ہوگا۔ ساتھ ہی اس قانون کے تحت اختلافِ رائے رکھنے والوں کو ’احتیاطی حراست‘ کے نام پر من مانی گرفتاریوں کا نشانہ بنایا جا سکے گا، جیسا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بانی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے۔
17 جون کو پنجاب اسمبلی نے ’پنجاب سینٹر آف ایکسیلینس آن کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم ایکٹ 2025‘ منظور کیا تاکہ پرتشدد انتہا پسندی اور شدت پسند نظریات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ یہ قانون حکومت اور معاشرے دونوں کی شمولیت پر مبنی مربوط حکمت عملی کا حصہ ہے۔
اس قانون کے تحت ایک تھنک ٹینک ’پنجاب سینٹر آف ایکسیلینس آن کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم‘ قائم کیا جائے گا جو کہ حکومتِ پنجاب کی پالیسی سازی میں معاونت فراہم کرے گا۔ یہ سینٹر آن لائن انتہا پسند مواد، سائبر پروپیگنڈا اور تشدد پر اکسانے والے مواد پر بھی نظر رکھے گا اور اسے زائل کرنے کی حکمت عملی اپنائے گا۔
یہ مرکز مختلف سماجی حلقوں سے رابطے میں رہے گا تاکہ پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف متبادل بیانیے تشکیل دیے جا سکیں ۔
یہ قانون حکومت کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پر عملدرآمد کے سلسلے میں معاونت فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ مرکز تربیتی ورکشاپس، ریسرچ فیلوشپس اور عوامی مہمات کا انعقاد بھی کرے گا تاکہ نوجوانوں اور حساس گروپوں کو شدت پسندی سے بچایا جا سکے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں بورڈ آف گورنرز اس سینٹر کی نگرانی کرے گا۔ ہوم اور ہائر ایجوکیشن کے صوبائی وزرا، چیف سیکریٹری، انسپکٹر جنرل پولیس اور ماہرینِ تعلیم و سول سوسائٹی کے افراد بھی اس بورڈ کا حصہ ہوں گے۔
اس سینٹر کے لیے فنڈنگ حکومتِ پنجاب، بین الاقوامی ڈونرز اور نجی شعبے کی جانب سے آئے گی۔ آئندہ مہینوں میں حکومتِ پنجاب بورڈ آف گورنرز کی باضابطہ تشکیل دے گی اور سینٹر کے جسمانی و انتظامی ڈھانچے پر کام شروع کیا جائے گا۔
پنجاب طویل عرصے سے ایسے مذہبی انتہا پسند گروہوں کا گڑھ رہا ہے، جو اکثر کھلے عام کام کرتے رہے ہیں۔ ایسے پس منظر میں اس قانون اور مرکز کا قیام یقیناً درست سمت کی جانب ایک قدم ہے۔ تاہم اس قانون کا غیر جانبدارانہ اور منصفانہ نفاذ سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
پنجاب میں یہ قانون منظور ہونے کے بعد پاکستان کے چاروں صوبوں نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق قوانین (PCVE) منظور کر لیے ہیں۔ دسمبر 2024 میں منظور کی گئی ’نیشنل پالیسی فار پریوینشن آف وائلنٹ ایکسٹریمزم 2024‘ نے صوبائی سطح پر ایسے مراکز کے قیام کی بنیاد رکھی تھی۔
خیبر پختونخوا نے 2021 میں سب سے پہلے یہ قانون منظور کیا اور سینٹر قائم کیا۔ بلوچستان نے اکتوبر 2024 میں انسداد دہشت گردی کے فریم ورک کے تحت قانون منظور کیا۔ سندھ نے اپریل میں اس کی پیروی کی، لیکن خیبر پختونخوا کے سوا باقی تمام صوبوں میں یہ مراکز تاحال فعال نہیں ہو سکے اور بیوروکریٹک مراحل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں نیا انسداد دہشت گردی قانون وہاں کے انسدادِ بغاوت فریم ورک کو مزید عسکری رنگ دے گا، جو کہ پہلے ہی تشدد اور بدامنی کا شکار ہے۔ سکیورٹی پر مبنی انسداد بغاوت کی حکمت عملی، اگر حقیقی سیاسی عمل اور عوامی شکایات کے حل کے بغیر اپنائی جائے، تو مزید نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ’انسداد دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025‘ عوامی مسائل کے حل کے بجائے نئے مسائل پیدا کرے گا اور بدلہ چکانے والے تشدد کے دائرے کو جاری رکھے گا۔
دوسری طرف پنجاب کا یہ نیا قانون مثبت قدم ہے، لیکن اس پر مؤثر عملدرآمد کے لیے مضبوط سیاسی عزم، قائدانہ کردار، ہر قسم کی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے غیر امتیازی حکمت عملی، وسائل کی فراہمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔
پاکستان میں پرتشدد شدت پسندی کے خلاف قوانین اور ادارے تو موجود ہیں، لیکن ان کے دائرہ کار میں ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث الجھنیں اور ذمہ داری سے گریز پایا جاتا ہے۔ آنے والے مہینوں میں حکومتِ پنجاب کی جانب سے ان چیلنجز سے نمٹنے کا انداز اور مستقبل کی حکمت عملی اس قانون کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرے گی۔
مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ان کا ایکس ہینڈل یہ ہے: @basitresearcher
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔