انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی قصبے کپواڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں برمری کی ایک نوجوان خاتون نے بی بی اے کرنے کے بعد لہسن کی کاشت کاری شروع کی اور اب وہ ’گارلک گرل آف کپواڑہ‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
کشمیر میں لہسن کی کاشت کاری خاص طور پر مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے، تاہم 24 سالہ حمیرا عاشق نے یہ روایت غلط ثابت کی اور تین کنال کی زمین پر لہسن اگانے کی شروعات کی، جو کامیاب رہا۔
حمیرا خود ہی یہ کام نہیں کرتیں بلکہ برمری گاؤں کی دیگر تعلیم یافتہ لڑکیوں کو بھی لہسن کی کاشت کاری سکھاتی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ سفر تین کنال کی زمین پر ایک چھوٹے سے تجربے سے شروع ہوا، جو اب چھ کنال سے زائد رقبے پر پھیل چکا ہے، لیکن کہانی صرف رقبے یا پیداوار کی نہیں بلکہ یہ سفر ہمت، جدوجہد اور سیکھنے کا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اگرچہ راستہ آسان نہیں رہا۔ سماجی دباؤ، تکنیکی مسائل اور ایک مردانہ شعبے میں ایک عورت کا ابھرنا ایک چیلنج رہا ہے۔ لوگ آج بھی پوچھتے ہیں کہ ’کب کوئی اچھی نوکری کرو گی؟‘ میں کہتی ہوں، میں خود اپنی کمپنی کی سی ای او ہوں۔‘
ابتدا میں حمیرا کے اس فیصلے نے اپنے ہی گھر میں ہلچل مچا دی اور ان کے خاندان نے ان کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا۔
بقول حمیرا: ’بی بی اے کرنے کے بعد لہسن اگانے کی بات کرنا سب کو عجیب لگا تھا، لیکن مجھے پورا یقین تھا کہ اگرچہ مشکل ہو سکتا ہے لیکن اس تجربے میں کامیابی کے لیے میں پرامید تھی۔‘
انہوں نے محکمہ زراعت کپواڑہ کے تعاون سے جدید گرین ہاؤس تکنیکس سیکھیں۔ پہلا سال مشکل تھا، نقصان بھی ہوا، لیکن ہر موسم نے انہیں کچھ نیا سکھایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ آج ان کا فارم نہ صرف اعلیٰ معیار کا لہسن پیدا کرتا ہے جو مقامی منڈیوں میں فروخت ہوتا ہے، بلکہ ان کے فارم پر چھ مقامی افراد بھی کام کر رہے ہیں۔
بقول حمیرا: ’اپنے کامیاب تجربے کی خوشی سے زیادہ اس بات کی خوشی ہے کہ میں دوسروں کو روزگار دے رہی ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ آنے والے وقت میں لہسن کی کاشت کاری کو مزید آگے بڑھائیں گی، جس کے لیے وہ زمین کرائے پر لینے کی کوشش میں لگی ہیں، جس سے یہاں کے بےروزگار نوجوان کو روزگار فراہم ہوسکتا ہے۔
حمیرا نے کہا: ’میں چاہتی ہوں کہ یہاں بےروزگار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو کر لہسن کی کاشت کاری میں اپنی قسمت آزمائی کریں۔‘
تاہم ان کا خواب صرف لہسن تک محدود نہیں۔ وہ زرعی مصنوعات کی پروسیسنگ، قدر میں اضافے اور برآمدات کے امکانات پر بھی کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’لہسن تو آغاز تھا، میں چاہتی ہوں کہ زراعت کو ہم ایک باعزت اور منافع بخش پیشہ سمجھیں۔‘