پشمینہ کی شال یوں تو دنیا میں ویسے بھی مقبول ہے لیکن اس پر سوئی اور دھاگوں کی مدد سے انسانی تصاویر بنانے والے کشمیری آرٹسٹ شوکت احمد نے اس روایتی دستکاری کو مزید بلندی تک پہنچا دیا ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں گاندربل کے علاقے گنڈ سے تعلق رکھنے والے شوکت احمد بتاتے ہیں کہ ان کا مقصد اس منفرد آرٹ فارم اور پشمینہ کے کاری گروں کی اہمیت پر روشنی ڈالنا ہے جو مقبولیت کھو رہے ہیں۔
شوکت روایتی کاری گروں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے یہ ہنر سیکھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ہمارا خاندانی کام ہے اور میں نے سوچا کہ اس ہنر سے جڑ جاؤں، پھر میں نے اس روایتی ہنر میں جدت لائی۔ جس میں کسی مشہور و معروف شخصیت کی تصویر اپنے ہاتھ سے بناتے ہیں۔ اس میں نہ ہم کسی رنگ کا استعمال کرتے ہیں، نہ کسی مشین کا، بلکہ صرف سوئی دھاگے کا استعمال کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’پشمینہ شال پر میں نے قرآن لکھنا شروع کیا ہے اور سورہ بقرہ کی کچھ آیات تحریر کی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ’درود ابراہیمی‘ بھی لکھنا شروع کیا ہے۔
’مجھے شوق ہے کہ میں قرآن لکھنے کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رکھوں۔‘
شوکت احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیاسی رہنماؤں، بالی وڈ اداکاروں اور پولیس افسران جیسے افراد کی تصاویر اپنے فن کے ذریعے تخلیق کی ہیں۔
پورٹریٹ بنانے کے عمل کا خلاصہ کرتے ہوئے شوکت کا کہنا ہے کہ ’ہم مختلف رنگ لگا کر پھوٹی بناتے ہیں جس میں ہمیں 10 دن لگتے ہیں۔
’اس کے بعد ہم دھاگے سے اون نکالتے ہیں کیونکہ اس میں ہیئر سٹائل بھی نکلنا چاہیے اور چہرے کی بناوٹ بھی ظاہر ہونی چاہیے تاکہ کوئی سمجھے اور پہچانے کہ یہ کون ہیں۔ اسی طرح ہم اس میں مختلف رنگ لگا کر اسے تیار کرتے ہیں جس میں ہمیں دس دن لگتے ہیں۔‘
شوکت کہتے ہیں کہ ’ہم وہی سوئی دھاگا استعمال کرتے ہیں جو روایتی پشمینہ شال میں استعمال ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شوکت کے مطابق: ’میں کب کیا بناؤں گا، کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ قدرتی طور پر میرے دماغ میں کوئی آخیال آ جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ خیال میرے دماغ میں کیسے آتا ہے۔ مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، اچانک میرے دماغ میں آتا ہے کہ یہ بناؤ۔ اس طرح میں نے سلسلہ جاری رکھا ہے۔‘
شوکت کو اس فن کی وجہ سے کافی قبولیت حاصل ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پورٹریٹس بنانے سے پہلے مجھے کوئی نہیں جانتا تھا لیکن پورٹریٹس بنانے کے بعد میں بہت مشہور ہو چکا ہوں۔ مجھے لوگوں کی بہت سپورٹ ملی ہے۔ بہت سے آرڈرز ملے، جنہیں میں تیار کر کے دے چکا ہوں اور ابھی بھی کچھ آرڈرز تیار کرنے ہیں۔‘
شوکت کے مطابق: ’پشمینہ دست کاری کافی حد تک ختم ہو چکی ہے اس لیے میں نے نیا طریقہ آزما کر اس فن میں جان ڈالی ہے تاکہ اور بھی لوگ اس صنعت کے ساتھ جڑ سکیں اور یہ ملک بھر میں مشہور اور مقبول ہو جائے۔‘